حکومتی کوششوں کے باوجود غلط فہمیاں، سوشل میڈیا پر افواہیں اور شعور کی کمی پاکستان کی بچیوں کو بچانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں

اسلام آباد سے ماہتاب بشیر
پاکستان میں 9 سے 14 سال کی عمر کی 1 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لڑکیوں کو ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ویکسین لگانے کی قومی مہم 15 ستمبر سے 27 ستمبر 2025 تک جاری ہے، جو بچیوں کو سروائیکل کینسر سے بچانے کے لیے ایک تاریخی اور جرات مندانہ قدم ہے۔ تاہم، اس مہم کو کامیابی تک پہنچانے کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوامی بداعتمادی، سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جھوٹی معلومات اور ویکسین سے متعلق عدم آگہی ہے۔
سروائیکل کینسر ایک خاموش قاتل ہے جو بچیوں کے رحم کے نچلے حصے میں بڑھتا ہے اور اکثر ابتدائی مراحل میں کوئی علامات ظاہر نہیں کرتا۔ جب علامات ظاہر ہوتی ہیں، تو وہ عام بیماریوں جیسے بےقاعدہ حیض، غیر معمولی رطوبت، پیڑو میں درد یا پیشاب کی تکلیف جیسی محسوس ہوتی ہیں، جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بروقت ویکسینیشن اس مرض سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔
اس مہم میں چینی ساختہ ویکسین ’Cecolin‘ استعمال کی جا رہی ہے، جو دنیا بھر میں 2006 سے رائج ہے اور ایچ پی وی کی دو اقسام (16 اور 18) کے خلاف مدافعت فراہم کرتی ہے، جو 70 فیصد سروائیکل کینسر کے کیسز کی ذمہ دار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی 2030 تک سروائیکل کینسر کے خاتمے کی حکمت عملی میں یہ ویکسین بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان میں ہر سال 5,000 سے زائد خواتین اس کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور بقا کی شرح محض 36 فیصد ہے، جو تشویشناک ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ویکسین پنجاب، سندھ، اسلام آباد اور آزاد جموں و کشمیر میں دی جا رہی ہے، جبکہ 2026 میں خیبر پختونخوا اور 2027 میں بلوچستان و گلگت بلتستان تک اس کے دائرہ کار کو توسیع دی جائے گی۔
اسلام آباد کی ضلعی صحت افسر ڈاکٹر رشیدہ بتول کے مطابق، شہر میں 1 لاکھ 47 ہزار بچیوں کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جن میں اسکول جانے والی اور غیر رسمی تعلیمی اداروں کی بچیاں شامل ہیں۔ تاہم مہم کے تیسرے دن ہی والدین کی جانب سے انکار کی شکایات موصول ہونا شروع ہو گئیں، جس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی افواہیں اور غلط فہمیاں ہیں۔

افواہوں میں ویکسین کو بانجھ پن، حلال و حرام، اور غیر ملکی سازشوں سے جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر پھیلنے والی ان باتوں سے والدین میں خوف بڑھ گیا ہے، حالانکہ 150 سے زائد ممالک میں یہی ویکسین محفوظ اور مؤثر ثابت ہو چکی ہے۔
اس تناظر میں وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو عوامی طور پر ویکسین لگوا کر اس مہم پر اعتماد کا اظہار کیا۔ کراچی میں منعقدہ آگاہی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ویکسین نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اسلامی ممالک میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کسی بھی بچے کی جان محض افواہوں کی بنیاد پر خطرے میں نہیں ڈالی جانی چاہیے۔
نجی اسکولز کی تنظیم ’پرائیویٹ اسکولز نیٹ ورک‘ کے ڈاکٹر محمد افضل بابر نے بھی والدین میں بڑھتی ہوئی الجھن پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ آگاہی مہم نہایت ضروری ہے، کیونکہ والدین کی اکثریت اس ویکسین سے ناواقف ہے اور افواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کر رہی ہے۔
Jhpiego کی حالیہ تحقیق کے مطابق، پاکستان میں صرف 19 فیصد والدین کو سروائیکل کینسر کا علم ہے، 5 فیصد کو ایچ پی وی وائرس کی پہچان ہے، اور صرف 2 فیصد والدین ویکسین سے واقف ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر سمجھتے ہیں کہ اس بیماری کا علاج موجود ہے، جو ایک بڑی غلط فہمی ہے۔
ان حالات میں حکومت، شہری تنظیموں، اساتذہ، دینی رہنماؤں اور صحت کے کارکنان کا اشتراک نہایت اہم ہو چکا ہے۔ مہم کے دوران متحرک اینی میشنز، مقامی زبانوں میں ویڈیوز، مساجد و اسکولوں میں خطابات، اور گھر گھر آگاہی مہمات کے ذریعے مزاحمت کو قبولیت میں بدلا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر رشیدہ بتول نے کہا، ’’ویکسینیشن مہم کے بعد ہم اس ویکسین کو پاکستان کے معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ ہر بچی کو یہ تحفظ مستقل بنیادوں پر میسر ہو۔‘‘
وفاقی ڈائریکٹر برائے امیونائزیشن، ڈاکٹر خرم شہزاد نے اس مہم کو ’اجتماعی ذمہ داری‘ قرار دیا اور کہا کہ اگر والدین، اساتذہ، علمائے کرام، ڈاکٹرز اور حکومت مل کر کام کریں تو کوئی بچی بھی اس قابلِ علاج کینسر سے نہ مرے۔
پاکستان کے لیے یہ مہم صرف ایک طبی پروگرام نہیں بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی چیلنج بھی ہے، جسے علمی، شعوری اور اجتماعی سطح پر قبول کر کے ہی کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خوف کی جگہ حقیقت، اور افواہ کی جگہ اعتماد لے — کیونکہ یہ مہم صرف آج کی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بقا کا معاملہ ہے۔
#HPVVaccine #Pakistan #HealthForAll #Vaccination #PublicHealth #Misinformation #VaccineHesitancy #DigitalLiteracy #CervicalCancer