منگل , اکتوبر 14 2025

پنجاب کی سرکاری جامعات سے طلبہ تنظیموں کے خاتمے کا فیصلہ

حکومت پنجاب نے تمام سرکاری جامعات سے طلبہ تنظیموں کے خاتمے کی ہدایت دے دی ہے تاکہ تعلیمی اداروں کا ماحول تحقیق اور علم پر مرکوز کیا جا سکے

پنجاب حکومت نے صوبے بھر کی سرکاری جامعات میں طلبہ تنظیموں کے مکمل خاتمے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت تمام وائس چانسلرز کو نیا ٹاسک اور مکمل اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام جامعات کو ’’علم و تحقیق کا حقیقی گہوارہ‘‘ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ حکومت کا موقف ہے کہ طلبہ تنظیمیں اکثر علمی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتی ہیں اور تعلیمی ماحول میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔

یونیورسٹی ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ اب کسی بھی قسم کی طلبہ تنظیم، خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی، جامعات میں سرگرم نہیں رہ سکے گی۔ اس ضمن میں وائس چانسلرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے تمام گروہوں کی نشاندہی کریں جو تعلیمی ماحول میں مداخلت یا تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہوں اور ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد جامعات کو غیر سیاسی اور خالصتاً علمی اداروں میں تبدیل کرنا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں نے نہ صرف نظم و ضبط کو متاثر کیا بلکہ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان تعلقات کو بھی منفی طور پر متاثر کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق محکمہ ہائر ایجوکیشن نے متعلقہ اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ اس فیصلے پر بلا امتیاز عملدرآمد یقینی بنائیں۔ کسی خاص تنظیم کو نشانہ بنانے کے بجائے تمام طلبہ تنظیموں کے خلاف یکساں کارروائی کی جائے گی۔

ایک سینئر یونیورسٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “کئی سالوں سے تعلیمی ادارے سیاسی گروپ بندیوں کے اثر میں تھے۔ اب حکومت کا مقصد اس دائرے کو ختم کرنا اور تعلیمی اداروں کو دوبارہ علم اور تحقیق کا مرکز بنانا ہے۔”

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب یونیورسٹی انتظامیہ کسی بھی طالبعلم یا گروہ کے خلاف کارروائی کرنے میں آزاد ہوگی جو اپنی حدود سے تجاوز کرے یا ادارے کے علمی ماحول کو متاثر کرے۔ ایسے طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی، معطلی، یا حتیٰ کہ داخلے کی منسوخی تک کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

تعلیمی ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت کا یہ اقدام نظم و ضبط کی بحالی کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ خدشات بھی موجود ہیں کہ اس سے طلبہ کی جمہوری آواز اور نمائندگی محدود ہو سکتی ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر رضوان احمد کے مطابق “طلبہ سیاست کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے منظم اور ذمہ دارانہ فریم ورک کے تحت اجازت دینا زیادہ بہتر حکمتِ عملی ہوتی۔ جامعات میں طلبہ نمائندگی ایک اہم تربیتی عمل ہے جو مستقبل کے قائدین تیار کرتی ہے۔”

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کی جامعات میں طلبہ تنظیموں نے سماجی، سیاسی اور جمہوری عمل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں یہ تنظیمیں سیاسی شعور اور طلبہ حقوق کے لیے متحرک رہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سیاسی مداخلت اور تشدد کے واقعات بڑھنے لگے۔ 1984 میں فوجی حکومت نے ملک بھر میں طلبہ یونینز پر پابندی عائد کی تھی، جس کے بعد سے ان کی بحالی اور خاتمے کے درمیان بحث وقفے وقفے سے جاری رہی۔

موجودہ حکومت کا مؤقف ہے کہ جدید دور میں جامعات کو سیاسی سرگرمیوں کے بجائے تحقیق، ٹیکنالوجی اور اختراعات پر مرکوز ہونا چاہیے تاکہ عالمی معیار کی تعلیم حاصل کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے جامعات میں طلبہ کے لیے تحقیقی، ادبی اور کھیلوں کے فورمز کو فروغ دینے کی تجاویز بھی زیرِ غور ہیں۔

پنجاب بھر کی جامعات میں یہ فیصلہ بیک وقت نافذ کیے جانے کی توقع ہے، اور وائس چانسلرز کو اس عمل میں کسی قسم کی سیاسی دباؤ سے آزاد کام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹیوں میں امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھنے اور کسی بھی ممکنہ احتجاج یا مزاحمت سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کریں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق، اس فیصلے کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط، تحقیقی سرگرمیوں، اور علمی ماحول کو فروغ ملنے کی توقع ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر اس پالیسی کے نفاذ میں شفافیت اور توازن برقرار نہ رکھا گیا تو یہ قدم نوجوانوں کی آواز دبانے کے مترادف بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

فی الوقت، پنجاب کی سرکاری جامعات اس پالیسی پر عملدرآمد کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اور امکان ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں طلبہ تنظیموں کے دفاتر، بینرز اور سرگرمیوں کے خاتمے کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ’’جامعات کا مقصد سیاست نہیں، بلکہ تعلیم، تحقیق اور ترقی کا فروغ ہے‘‘ — اور اسی نظریے کے تحت یہ قدم ملک کے تعلیمی مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

سمندری کیبل کی مرمت سے انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے کا امکان

پی ٹی سی ایل کے مطابق بین الاقوامی کیبل کی مرمت کا کام آج صبح …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے