ماہرین صحت کے مطابق روزانہ 7,000 قدم جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں

ایک حالیہ عالمی مطالعے کے مطابق، دنیا بھر میں بالغ افراد روزانہ اوسطاً 5,000 سے 6,500 قدم چلتے ہیں، جو کہ صحت مند طرزِ زندگی کے لیے تجویز کردہ 10,000 قدم کے ہدف سے خاصا کم ہے۔ یہ انکشاف معروف تحقیقی جریدے “The Lancet Global Health” اور دیگر سائنسی ذرائع میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے سامنے آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق 10,000 قدم کا تصور اگرچہ فٹنس انڈسٹری میں مقبول ہے، تاہم صحت پر مثبت اثرات کے لیے اتنی بڑی تعداد ضروری نہیں۔
صحت اور جسمانی فٹنس سے متعلق عالمی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قدموں کی تعداد اور بیماریوں کے خطرے کے درمیان الٹی نسبت پائی جاتی ہے — یعنی جتنے زیادہ قدم روزانہ چلے جائیں، اتنا ہی دل کی بیماریوں، فالج، اور قبل از وقت اموات کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق روزانہ صرف 7,000 قدم چلنے والے افراد میں بھی اموات کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
تحقیق میں شامل محققین نے بتایا کہ 3,500 سے 10,900 قدم روزانہ چلنے والے افراد کا موازنہ کیا گیا، جن میں درمیانی سطح پر قدم چلنے والوں نے بہتر نتائج حاصل کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 10,000 قدم کا ہدف درحقیقت 1960 کی دہائی میں جاپان میں ایک مارکیٹنگ مہم کے دوران مشہور ہوا تھا، جسے سائنسی جواز کے بغیر قبول کیا گیا اور وقت کے ساتھ عالمی معیار کی شکل اختیار کر گیا۔
آکسفورڈ، اسٹینفورڈ، اور دیگر اداروں کے ڈیٹا کے مطابق، جاپان میں اوسط قدموں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 7,000 سے زائد ہے، جب کہ امریکہ اور یورپ میں یہ 4,500 سے 5,500 کے درمیان ہے۔ ایک عالمی جائزے میں “دنیا کے اوسط فرد” کے روزانہ قدم 5,323 شمار کیے گئے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ زیادہ پیدل چلنے والے عموماً ان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شہری نقل و حرکت کا دارومدار پبلک ٹرانسپورٹ اور پیدل چلنے پر ہوتا ہے۔
پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں اس حوالے سے مخصوص قومی اعداد و شمار موجود نہیں، لیکن طرزِ زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں کے شہری روزانہ 3,000 سے 4,500 قدم ہی چلتے ہوں گے۔ دفاتر میں بیٹھ کر کام کرنے، پبلک مقامات پر مناسب پیدل راستوں کی کمی، اور سست رفتار طرزِ زندگی ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی وجہ سے یہاں قدموں کی تعداد کم رہتی ہے۔
امریکن انسٹی ٹیوٹ فار کینسر ریسرچ کے مطابق، روزانہ 6,000 سے 8,000 قدم بھی کافی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ باقاعدگی سے اور مستقل مزاجی کے ساتھ چلائے جائیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ مقصد صرف زیادہ قدم چلنا نہیں بلکہ ایسی عادات اختیار کرنا ہیں جو طویل عرصے تک برقرار رہ سکیں۔
جدید فٹنس ٹریکرز اور اسمارٹ واچز نے قدم گننے کا عمل آسان بنا دیا ہے، لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ صرف ڈیجیٹل ہدف پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے طرزِ زندگی میں فعال سرگرمیوں کو شامل کرنا زیادہ اہم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، بالغ افراد کو ہفتہ وار کم از کم 150 منٹ کی درمیانے درجے کی جسمانی سرگرمی درکار ہوتی ہے، جو یومیہ تقریباً 7,000 قدم کے برابر بنتی ہے۔
آخر میں، طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر فرد کو اپنی جسمانی صلاحیت، عمر، اور صحت کے مسائل کے مطابق قدموں کی تعداد متعین کرنی چاہیے۔ ایک ماہر قلبی صحت نے کہا، “ضروری نہیں کہ سب 10,000 قدم روزانہ چلیں، لیکن جو بھی تعداد ہو، اس میں بتدریج اضافہ زندگی کو زیادہ متحرک اور صحت مند بنا سکتا ہے۔”
حالیہ عالمی سروے اور تجزیاتی رپورٹس اس جانب واضح اشارہ دے رہی ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ، خصوصاً باقاعدہ چہل قدمی، ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے صحت مند زندگی کی جانب پیش رفت کا۔ روزانہ چند سو قدموں کا اضافہ بھی لمبے عرصے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے، اور یہی پیغام ماہرین عام عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔