اوگرا کی سفارش پر یکم اکتوبر سے نئی قیمتوں کا اطلاق

حکومت پاکستان نے یکم اکتوبر 2025 سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے 30 ستمبر کو جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (HSD) دونوں کی قیمتوں میں 4 روپے سے زائد فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق دو ہفتوں کے لیے ہوگا اور یہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور متعلقہ وزارتوں کی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 272.77 روپے سے بڑھا کر 276.81 روپے فی لیٹر کر دی گئی ہے، یعنی 4.04 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح، ایم ایس (پٹرول) کی قیمت 264.61 روپے سے بڑھا کر 268.68 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے، جو کہ 4.07 روپے کا اضافہ بنتا ہے۔
عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ اور اوپیک پلس کی جانب سے پیداوار میں کمی کے تسلسل نے پاکستان جیسے درآمدی انحصار رکھنے والے ملک میں ایندھن کی لاگت میں اضافہ کیا ہے۔ برینٹ کروڈ آئل کی قیمتیں مسلسل 90 ڈالر فی بیرل سے اوپر رہنے کے باعث ملکی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں ہر دو ہفتے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جاتا ہے، جس میں عالمی مارکیٹ کی قیمتیں، روپے اور ڈالر کے تبادلے کی شرح، اور مقامی ٹیکس پالیسیاں شامل ہوتی ہیں۔ اوگرا ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی قیمتوں کی سفارشات مرتب کرتا ہے، جنہیں وزارت خزانہ کی منظوری کے بعد لاگو کیا جاتا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ اضافہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ ایندھن کی قیمتیں نقل و حمل، پیداوار، بجلی، اور زرعی سرگرمیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ پہلے بھی ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش، صنعتی اشیاء اور سروسز کی لاگت میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس سے عام شہری بری طرح متاثر ہوئے۔
یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عوام پہلے ہی بجلی کے نرخوں، مہنگائی اور دیگر اقتصادی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ تاجر تنظیمیں، صنعت کار اور شہری حلقے بارہا مطالبہ کر چکے ہیں کہ حکومت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں ریلیف دے تاکہ افراط زر پر قابو پایا جا سکے۔ مگر موجودہ اضافے نے ان امیدوں کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اکثر سیاسی اور معاشی فیصلوں کا مرکز رہی ہیں۔ 2022 میں ایندھن کی قیمتوں میں متواتر اضافوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کو جنم دیا تھا۔ حالیہ برسوں میں، آئی ایم ایف کے ساتھ مالی معاہدوں کے تحت، حکومت کو پٹرولیم لیوی سمیت مختلف ٹیکس اہداف کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ مالی سال میں پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی شرح 60 روپے فی لیٹر مقرر ہے، جو حکومت کی اہم غیر ٹیکس آمدن کا ذریعہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران، اگر عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی نہ آئی اور روپے کی قدر مستحکم نہ ہوئی، تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی خارج از امکان نہیں۔ خاص طور پر سردیوں میں ڈیزل کی طلب میں اضافے کے باعث اگلی نظرثانی میں قیمتوں پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے۔
عام شہریوں کے لیے یہ اضافہ ایک اور بوجھ بن کر آیا ہے، کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کا براہ راست اثر نہ صرف آمد و رفت پر بلکہ اشیائے ضروریہ، بجلی کے بلوں اور مجموعی مہنگائی پر بھی پڑتا ہے۔ حکومت کی جانب سے فی الحال کسی سبسڈی یا ریلیف پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا، جس سے کم آمدنی والے طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔