سوشل میڈیا تنقید اور پابندی کے مطالبات کے باوجود شو کی پہلی قسط چند گھنٹوں میں سوا لاکھ ویوز کے ساتھ مقبول

سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور مختلف حلقوں کی جانب سے پابندی کے مطالبات کے باوجود، متنازع ریئلٹی شو ’لازوال عشق‘ کی پہلی قسط 29 ستمبر کو یوٹیوب پر ریلیز کر دی گئی۔ ابتدائی ریلیز کے چند ہی گھنٹوں میں اسے 1.25 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے، جس سے شو کی ابتدائی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تقریباً 130 منٹ طویل اس قسط میں شو میں شامل لڑکوں اور لڑکیوں کا تعارف کرایا گیا۔ شو کے فارمیٹ کے مطابق، ان شرکا سے ان کی پسند کے مخالف جنس کے افراد کے بارے میں بھی سوالات کیے گئے اور انہیں آئندہ اقساط کے طریقہ کار سے آگاہ کیا گیا۔ شرکا کو بولڈ مغربی لباس میں پیش کیا گیا جبکہ میزبان و اداکارہ عائشہ عمر شو میں بلا جھجک مختلف موضوعات پر بات کرتی دکھائی دیں۔
شو کے ٹریلر کے بعد سے ہی اس پر سوشل میڈیا صارفین اور معروف شخصیات کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ ناقدین نے شو کو ’ڈیٹنگ شو‘ قرار دیا اور پاکستان میں ’اسلامی اور سماجی اقدار‘ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر فوری پابندی کا مطالبہ کیا۔ عائشہ عمر نے تاہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شو محض ’ڈیٹنگ‘ کے بجائے ’لازوال محبت اور سچے عشق‘ کی تلاش پر مبنی ہے۔
عائشہ عمر کے اس وضاحتی بیان کے بعد بھی تنازع ختم نہ ہوا۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے واضح کیا کہ چونکہ ’لازوال عشق‘ کسی ٹی وی چینل پر نشر نہیں کیا جا رہا بلکہ صرف یوٹیوب جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر موجود ہے، اس لیے اس پر پابندی لگانا پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

دوسری جانب، سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس شو کو آن لائن پلیٹ فارمز پر نشر ہونے سے روکیں۔ تاہم، حکومتی سطح پر تاحال کوئی باقاعدہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’لازوال عشق‘ کی شوٹنگ ترکیہ میں کی گئی ہے، اور اس کا فارمیٹ بھی ایک ترک شو سے متاثر ہے۔ اسی طرز کے شوز پہلے ہی عربی، فارسی اور دیگر علاقائی زبانوں میں پیش کیے جا چکے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر بھی ناظرین میں مقبول رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، ’لازوال عشق‘ کی مجموعی طور پر 100 قسطیں نشر کی جائیں گی، جن میں سے ہر قسط ممکنہ طور پر ہر ہفتے یوٹیوب پر جاری کی جائے گی۔ یہ ماڈل عالمی ریئلٹی شوز کی طرز پر ترتیب دیا گیا ہے، جہاں ہر ہفتے ناظرین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے نیا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ ریئلٹی شو پاکستانی ڈیجیٹل اسپیس میں ایک نیا تجربہ ہے، لیکن اس کا مواد اور انداز روایتی پاکستانی اقدار سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے عوامی حلقوں میں متنازع بن چکا ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا شو کی آئندہ اقساط عوامی دباؤ کے اثر میں آکر تبدیلی کا شکار ہوتی ہیں یا شو اپنی موجودہ شکل میں جاری رہے گا۔
عوامی ردعمل، اخلاقی اقدار، اور آزادی اظہار کے درمیان یہ کشمکش ’لازوال عشق‘ کو پاکستان میں ڈیجیٹل مواد کی سمت اور حدود کے حوالے سے ایک اہم ٹیسٹ کیس بنا رہی ہے۔