عائشہ عمر کے ڈیٹنگ شو کی حمایت پر مکرم کلیم، نادیہ خان، عتیقہ اوڈھو اور مرینہ خان عوامی ردعمل کی زد میں

پاکستانی ویب شو ’کیا ڈرامہ ہے‘ میں عائشہ عمر کے نئے ڈیٹنگ شو ’لازوال عشق‘ کے دفاع نے سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا ہے، جہاں میزبان مکرم کلیم اور ججز نادیہ خان، عتیقہ اوڈھو اور مرینہ خان کو منافقت اور ثقافتی اقدار کے خلاف جانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ شو کی حالیہ قسط میں، مذکورہ پینل نے ترکی میں فلمائے گئے اس متنازع ڈیٹنگ شو کی حمایت کی، جو جلد یوٹیوب پر نشر کیا جائے گا۔
’لازوال عشق‘ کا کانسیپٹ مغربی طرز کے ڈیٹنگ شوز جیسا ہے، جس میں بیچلر لڑکے ایک ولا میں اکٹھے رہتے ہیں اور لڑکیوں سے براہِ راست گفتگو کرتے ہیں۔ اس پروگرام کو ’دی بیچلر‘ یا ’ٹیرس ہاؤس‘ جیسے بین الاقوامی فارمیٹس سے متاثر سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ شو کا نشانہ ترک ناظرین ہیں، لیکن اس کا اردو زبان میں مواد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
پینل نے شو کا دفاع کرتے ہوئے مختلف دلائل پیش کیے۔ مکرم کلیم نے کہا، ’’مجھے کسی کو گاؤن میں اردو بولتے ہوئے دیکھنا اچھا لگا۔‘‘ عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ بیچلرز کا ایک چھت کے نیچے رہنا ایک نیا اور دل چسپ تجربہ ہو سکتا ہے، جبکہ مرینہ خان نے پاکستانی ناظرین کی تنقید کو “شرمناک” قرار دیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی عوام نت نئے خیالات کو برداشت کرنے کے بجائے، ثقافتی جمود کو ترجیح دیتے ہیں۔
مرینہ خان کا کہنا تھا، “ہمیں شرم آتی ہے جب ہمارے لوگ ایسے پروگراموں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے شرم کی بات ہے۔” مکرم کلیم نے بھی اس خیال کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نئے فارمیٹس کو سراہنے کی ضرورت ہے۔
یہ وہی پینل ہے جس نے کچھ عرصہ قبل “برزخ” نامی ویب شو کے حق میں بات کی تھی، جب اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ان کے لیے، فنکارانہ اظہار رائے پر قدغنیں آزاد تخلیق کے لیے نقصان دہ ہیں۔ مگر ’لازوال عشق‘ کی حمایت پر جس قسم کی ردعمل سامنے آیا ہے، اس نے اس موقف کو ایک نئی بحث کی شکل دے دی ہے۔
سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں نے شو کی حمایت کو منافقت قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا، ’’یہ وہی لوگ ہیں جو تین ہفتے پہلے استاد اور طالب علم کے رشتے پر تنقید کر رہے تھے، اب ایک غیر اسلامی تصور کی تعریف کر رہے ہیں۔‘‘ ایک اور صارف نے لکھا، ’’یہاں بیٹھے ہر حرام کام کو جائز قرار دیتے ہیں۔‘‘
تنقید کا ایک بڑا نکتہ پاکستان کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کی پامالی ہے۔ کئی صارفین نے کہا کہ یہ پروگرام معاشرتی بگاڑ کا سبب بنے گا، اور فوری طور پر اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ ایک صارف نے کہا، ’’ہم اپنے لوگوں کو ایسی حرکتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری اقدار ہیں۔‘‘
ایک اور نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’یہ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ ’کیا ڈرامہ ہے‘ کا پینل ’لازوال عشق‘ کا دفاع کر رہا ہے۔‘‘ بعض صارفین نے باقاعدہ اس شو پر پیمرا سے پابندی لگوانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
یہ تنازع ایک بار پھر اس سوال کو ابھارتا ہے کہ پاکستانی تفریحی صنعت میں مغربی طرز کے مواد کی گنجائش کہاں تک ہے، اور کیا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر نشر ہونے والے پروگرامز مقامی اخلاقی ضابطوں کے تابع ہونے چاہئیں یا نہیں۔ ایک طرف فنکارانہ آزادی کا نعرہ ہے، تو دوسری جانب عوامی حساسیت اور ثقافتی حدود کی پاسداری۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’لازوال عشق‘ کا باضابطہ آغاز ابھی نہیں ہوا، لیکن صرف اس کے فارمیٹ کی معلومات پر ہی پاکستانی عوام میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ایک اشارہ ہے کہ جیسے ہی شو نشر ہوگا، یہ پاکستان میں مزید تہلکہ خیز بحث کا مرکز بنے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا عوامی دباؤ کے نتیجے میں اس شو کی نشریات پر اثر پڑتا ہے، یا یہ نئی نسل کے لیے ٹی وی مواد کے بدلتے معیار کی ایک علامت بن کر ابھرتا ہے۔ بہرحال، عائشہ عمر کا یہ قدم پاکستانی ڈیجیٹل انٹرٹینمنٹ کے لیے ایک نیا تجربہ ضرور بنے گا۔
#KyaDramaHai #LazawalIshq #PakistaniDramas #AyeshaOmar #NadiaKhan #MarinaKhan #AtiqaOdho #PakistaniMedia #SocialMedia #Controversy