روزمرہ دباؤ اور مصروفیات کے باوجود چند مثبت عادات ذہنی سکون اور خوشگوار زندگی کا ذریعہ بن سکتی ہیں

آج کے دور میں تیز رفتار زندگی اور بڑھتے دباؤ نے ذہنی سکون کو ایک نایاب شے بنا دیا ہے، لیکن ماہرین نفسیات اور صحت کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پرسکون زندگی کے لیے بڑی تبدیلیوں کی نہیں بلکہ چھوٹی مگر پائیدار عادات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہنی سکون کی تلاش میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اور اردگرد کے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مراقبہ، شکرگزاری، نیند اور مثبت سوچ جیسے اقدامات کو دنیا بھر میں ذہنی دباؤ کم کرنے کے مؤثر ذرائع مانا جاتا ہے۔
سب سے پہلے مراقبہ کا ذکر ضروری ہے جسے ذہنی سکون کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ صرف دس منٹ سانسوں پر توجہ مرکوز کرنے سے نہ صرف دماغی تھکن کم ہوتی ہے بلکہ منفی خیالات میں کمی اور نیند میں بہتری بھی آتی ہے۔ اسی طرح مائنڈ فلنیس یا موجودہ لمحے میں جینے کی عادت انسان کو ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے خدشات سے آزاد کرتی ہے۔ کھانے، چلنے یا کام کے دوران شعوری طور پر توجہ صرف ایک چیز پر مرکوز رکھنے سے ذہن کو سکون اور توانائی ملتی ہے۔
شکرگزاری بھی ایک ایسی مثبت عادت ہے جو دل کو ہلکا کرتی ہے۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ تین چیزیں لکھنا جن پر آپ شکر گزار ہیں، ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح فطرت کے قریب وقت گزارنا، چاہے وہ پارک میں سیر ہو یا گھر کے صحن میں پودوں کی دیکھ بھال، دماغ اور جسم دونوں کے لیے سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ورزش اور قدرتی ماحول میں چہل قدمی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
منفی سوچ کو کم کرنا بھی ذہنی سکون کے لیے ناگزیر ہے۔ مثبت جملے جیسے “یہ وقت بھی گزر جائے گا” یا “میں بہتر ہو رہا ہوں” نہ صرف خود اعتمادی بڑھاتے ہیں بلکہ مشکلات کا سامنا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہر وقت سوشل میڈیا پر مصروف رہنا ذہنی دباؤ کو بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ دن کے مخصوص اوقات میں ہی سوشل میڈیا استعمال کیا جائے اور سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے موبائل سے دور رہا جائے۔

ذہنی سکون کے لیے نیند کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نیند کی کمی چڑچڑاپن، اضطراب اور توجہ کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ روزانہ ایک ہی وقت پر سونا، موبائل اور ٹی وی سے پرہیز کرنا اور سونے سے پہلے دعا یا ذکر پڑھنا نیند کے معیار کو بہتر بناتا ہے۔ عبادات جیسے نماز، تلاوت اور دعا بھی دل کو سکون دیتی ہیں اور انسان کو روحانی اطمینان بخشتی ہیں۔
اسی طرح اپنے خیالات اور جذبات کو لکھنے کی عادت ذہنی بوجھ کم کرتی ہے۔ ڈائری لکھنا یا محض دن بھر کے اچھے برے واقعات نوٹ کرنا انسان کو ہلکا اور مطمئن کرتا ہے۔ اچھی صحبت بھی سکون کی ایک بڑی کنجی ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ لوگ جو خوش مزاج اور مثبت سوچ رکھنے والے افراد کے قریب رہتے ہیں، ان کی زندگی نسبتاً زیادہ پرسکون ہوتی ہے۔
یہ تمام عادات کسی ایک دن میں ذہنی سکون فراہم نہیں کرتیں بلکہ یہ ایک مسلسل سفر ہے۔ جیسے جیسے یہ معمولات زندگی کا حصہ بنتے ہیں، ویسے ویسے ذہن پرسکون اور زندگی خوشگوار ہوتی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ ایک بڑی طبی اور سماجی چیلنج ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے سادہ مگر مؤثر عادات اپنانا ناگزیر ہے۔
ذہنی سکون کسی بیرونی شے میں نہیں بلکہ انسان کے اپنے رویے، طرزِ فکر اور روزمرہ عادات میں پوشیدہ ہے۔ جو شخص ان مثبت طریقوں کو اپناتا ہے وہ نہ صرف دباؤ پر قابو پاتا ہے بلکہ خوشگوار اور بھرپور زندگی گزارنے کے قابل بھی ہو جاتا ہے۔
ذہنی سکون آخرکار اسی حقیقت میں ہے کہ انسان اپنے اندر جھانکے اور یہ سمجھے کہ سکون کسی چیز میں نہیں بلکہ خود اس کے دل و دماغ میں پوشیدہ ہے۔