پیر , دسمبر 1 2025

سینیٹ کمیٹی کا کرپٹو ایکسچینجز پر سخت شرائط پر تحفظات

سینیٹ خزانہ کمیٹی نے کہا کہ مجوزہ قوانین سے ورچوئل کرنسی کا کاروبار مشکل ہو جائے گا اور ریگولیٹری اتھارٹی کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے پر زور دیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک میں کرپٹو کرنسی ایکسچینجز کے قیام اور ان کی نگرانی کے لیے مجوزہ قوانین پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سخت شرائط کے باعث ورچوئل کرنسی کا کاروبار تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ کمیٹی کا یہ اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں ورچوئل اثاثہ جات بل 2025 پر تفصیلی غور کیا گیا۔

اجلاس کے دوران سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ حکومت نے ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی ہے جو لائسنسنگ، انسداد منی لانڈرنگ اور ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین اتھارٹی کے لیے تعلیمی قابلیت اور تجربے کے واضح معیار مقرر ہونے چاہییں تاکہ ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو۔

تاہم کمیٹی ارکان نے مجوزہ شرائط پر اختلاف کیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے مؤقف اپنایا کہ چیئرمین کے لیے ایم اے کی ڈگری لازمی قرار دینا غیر ضروری ہے اور بی ایس یا ایم ایس کی ڈگری کافی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ چیئرمین کے لیے ڈیجیٹل فنانس یا اس سے متعلقہ فیلڈ میں تعلیم کی شرط عائد کی جانی چاہیے تاکہ اتھارٹی کو عملی مہارت حاصل ہو۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ورچوئل کرنسی کے کاروبار کے لیے کمپنی رجسٹریشن لازمی ہوگی اور انفرادی سطح پر کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ابتدائی منظوری ریگولیٹری اتھارٹی دے گی، جس کے بعد ایس ای سی پی لائسنس جاری کرے گی، اور آخر میں اتھارٹی فٹ اینڈ پراپر سرٹیفیکیٹ دے گی۔ اس کے بغیر کوئی کمپنی ورچوئل اثاثہ جات کا کاروبار نہیں کر سکے گی۔

مزید کہا گیا کہ کمپنیاں اگر لائسنس حاصل کرنا چاہیں تو انہیں تین الگ درخواستیں دینا ہوں گی۔ ڈائریکٹرز کے خلاف کسی جرم کا عدالتی فیصلہ ہونے کی صورت میں کمپنی کا لائسنس مسترد کر دیا جائے گا۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ سخت ریگولیشن نہ ہونے کی صورت میں منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرمایہ کاری جیسے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

کمیٹی ارکان نے ان شرائط کو غیر ضروری اور کاروبار دشمن قرار دیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ جب ہر اجازت نامہ اتھارٹی کی صوابدید پر ہوگا تو سرمایہ کار اعتماد کھو دیں گے اور کاروباری ماحول متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ این او سی کی شرط سرمایہ کاروں کو مزید مشکلات میں ڈال دے گی۔

انوشہ رحمٰن نے کہا کہ قانون میں اس بات کی ضمانت ہونی چاہیے کہ کسی کمپنی کے خلاف عدالتی فیصلے کے بغیر لائسنس منسوخ نہ کیا جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ کمپنیاں متعدد درخواستیں جمع کرانے پر مجبور ہوں گی جس سے کاروبار مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

کمیٹی نے حکومت سے کہا کہ مجوزہ بل سے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جائیں کیونکہ پاکستان میں ایسے اختیارات اکثر غلط استعمال ہوتے ہیں۔ اراکین نے خبردار کیا کہ سخت قوانین غیر رسمی کرپٹو مارکیٹ کو فروغ دیں گے اور ریگولیٹڈ سیکٹر سکڑ جائے گا، جس کا نتیجہ سرمایہ کاروں کے انخلا کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اجلاس میں اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں پر بھی سوالات اٹھے۔ سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک اپنی تنخواہ خود مقرر کر رہے ہیں جبکہ یہ اختیار صدر مملکت، وزیر اعظم یا وزیر خزانہ کو ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق حکومت کی نگرانی کے بغیر تنخواہیں طے کرنا شفافیت کے اصولوں کے منافی ہے۔

کمیٹی نے اس معاملے پر گورنر اسٹیٹ بینک کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا اور فیصلہ کیا کہ گورنر اور ڈپٹی گورنر کی تنخواہوں کا معاملہ ان کیمرا اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا موضوع کئی سال سے متنازع چلا آ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ماضی میں کرپٹو ٹریڈنگ پر پابندی کی ہدایت جاری کی تھی لیکن عالمی سطح پر اس کے بڑھتے رجحان اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی کے باعث حکومت کو قانونی فریم ورک پر غور کرنا پڑ رہا ہے۔ دیگر ممالک جیسے دبئی، سنگاپور اور ملائیشیا میں کرپٹو بزنس کو سخت مگر واضح قوانین کے تحت اجازت دی گئی ہے، جہاں سرمایہ کار ریگولیٹری تحفظات کے باوجود مارکیٹ میں حصہ لے رہے ہیں۔

پاکستانی سینیٹ کی کمیٹی کا موقف ہے کہ اگر قوانین غیر عملی اور سرمایہ کاری مخالف ہوں تو ورچوئل اثاثہ جات کا کاروبار زیر زمین منتقل ہو جائے گا، جس سے ریونیو کے بجائے نقصان ہوگا۔ کمیٹی نے زور دیا کہ حکومت کو ایک متوازن قانون سازی کرنی چاہیے جو شفافیت کو یقینی بنائے لیکن کاروبار کو غیر ضروری بوجھ سے بھی بچائے۔

ورچوئل اثاثہ جات بل 2025 پر حتمی فیصلہ اگلے اجلاسوں میں متوقع ہے تاہم موجودہ بحث سے واضح ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ریگولیشن آسان مرحلہ نہیں ہوگا اور حکومت کو سرمایہ کاروں اور ریگولیٹری تحفظات کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔

About Aftab Ahmed

Check Also

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

پاکستان حکومت نے یکم دسمبر 2025 سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن …