ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر بہاؤ 3 لاکھ 11 ہزار کیوسک سے تجاوز، سندھ میں ایک لاکھ سے زائد افراد محفوظ مقامات پر منتقل

پنجاب کے دریاؤں میں جمعہ کو بھی انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی صورتحال برقرار رہی، جس کے باعث کئی اضلاع میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دریائے چناب پر چنیوٹ ہیڈ ورکس اور دریائے راوی پر بلوکی و سدھنائی ہیڈ ورکس پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر صورتحال مزید سنگین ہے، جہاں پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 11 ہزار کیوسک سے تجاوز کر گیا ہے، جسے ”انتہائی غیر معمولی اونچا سیلاب“ قرار دیا گیا ہے۔
بلوکی پر پانی کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سدھنائی پر بہاؤ میں کچھ کمی دیکھی گئی ہے۔ پنجند ہیڈ ورکس، جہاں ستلج کا پانی چناب میں شامل ہوتا ہے، پر اب بھی اونچے درجے کا سیلاب جاری ہے اور پانی کا اخراج 3 لاکھ کیوسک سے زائد ہے۔ چنیوٹ میں 5 لاکھ 39 ہزار796 کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے جو خطے کے لیے بڑا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق راوی کے سدھنائی ہیڈ ورکس پر بہاؤ کم ہوا ہے، تاہم ستلج کے گنڈا سنگھ والا پر صورتحال بدستور تشویشناک ہے، جہاں 3 لاکھ 11 ہزار673 کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا۔ دیگر ہیڈ ورکس پر بھی دباؤ برقرار ہے، مثلاً بلوکی پر ایک لاکھ 44 ہزار850 کیوسک کا اخراج جاری ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق مختلف رِم اسٹیشنز سے کل 3 لاکھ 96 ہزار900 کیوسک پانی چھوڑا گیا، جبکہ 4 لاکھ 33 ہزار500 کیوسک کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا۔ تربیلا ڈیم پر پانی کی سطح تقریباً 1550 فٹ تک پہنچ گئی ہے جو ڈیڈ لیول سے 148 فٹ زیادہ ہے، جبکہ منگلا ڈیم کی سطح 1229.50 فٹ ریکارڈ کی گئی جو ڈیڈ لیول سے 180 فٹ بلند ہے۔
کالا باغ سے 2 لاکھ 5 ہزار700، تونسہ سے 2 لاکھ 36 ہزار500، گڈو سے 3 لاکھ 27 ہزار500 اور سکھر سے 2 لاکھ 77 ہزار400 کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ نوشہرہ میں دریائے کابل سے 29 ہزار800 کیوسک اور مرالہ کے مقام پر دریائے چناب سے ایک لاکھ 71 ہزار کیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا۔
سیلاب کے خطرے کے پیش نظر سندھ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو کچے کے علاقوں سے منتقل کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے مطابق اب تک ایک لاکھ 9 ہزار320 افراد محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 14 ہزار430 افراد کو نکالا گیا، جبکہ 27 ہزار801 افراد کو طبی سہولتیں فراہم کی گئیں، جن میں سے 6 ہزار900 کا علاج صرف ایک روز میں کیا گیا۔

مزید بتایا گیا کہ 3 لاکھ 46 ہزار سے زائد مویشی بھی منتقل کیے گئے ہیں جبکہ 7 لاکھ 54 ہزار500 سے زیادہ کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ سندھ کے آبپاشی حکام کا کہنا ہے کہ بیراجوں کے نظام کو اس طرح کنٹرول کیا جا رہا ہے کہ پنجاب سے آنے والے پانی کے دباؤ کو سنبھالا جا سکے۔
سکھر بیراج کنٹرول روم کے انچارج عزیز سومرو کے مطابق پنجند پر پانی کے بہاؤ میں حالیہ اضافہ دراصل وہی اخراج ہے جو پہلے تریموں سے چھوڑا گیا تھا۔ کوٹری بیراج کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر عبیر شیخ نے بتایا کہ بیراج میں آبی سطح کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ سکھر سے آنے والے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان کے مطابق اس اقدام سے کلری بگھار فیڈر جیسی نہریں دباؤ میں آئیں، تاہم اب دوبارہ سطح کو قابو میں لایا جا رہا ہے اور بیراج کے 44 میں سے کچھ گیٹس کھولے جا رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں دریاؤں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور نقصانات کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں اگر بارشیں مزید بڑھیں تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، تاہم فی الحال ریسکیو آپریشن اور بیراج کنٹرول کے ذریعے حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ شدید سیلابی کیفیت نہ صرف متاثرہ علاقوں کے لاکھوں افراد بلکہ قومی معیشت اور زراعت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے، جس کے اثرات اگلے کئی مہینوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔