
ماہرین کے مطابق گردن کی موٹائی ہارٹ فیل، بلڈ پریشر، اور ٹائپ 2 ذیابیطس سمیت سنگین امراض کی پیشگوئی کر سکتی ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ گردن کی پیمائش انسانی صحت کے بارے میں حیران کن انکشافات کرتی ہے اور یہ ہارٹ فیل، ہائی بلڈ پریشر اور ٹائپ 2 ذیابیطس جیسے سنگین امراض کے خطرات کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ برطانیہ کی کنگسٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین نے کہا ہے کہ برسوں سے ڈاکٹروں نے صحت کی جانچ کے لیے باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) پر انحصار کیا ہے، لیکن اب گردن کی موٹائی ایک نیا اور زیادہ قابل اعتماد پیمانہ ثابت ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق گردن کی موٹائی دراصل جسم کے بالائی حصے میں موجود چربی کا اشارہ دیتی ہے جو کہ براہ راست دل اور خون کی نالیوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کے سینئر لیکچررز ڈاکٹر احمد البدیوی اور ڈاکٹر نادین وحیدہ نے وضاحت کی کہ گردن کے گرد جمع چربی خون میں فیٹی ایسڈز چھوڑتی ہے جو کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور دل کی دھڑکن کے نظام میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موٹی گردن والے افراد میں ہائی بلڈ پریشر، ایٹریل فیبریلیشن (دل کی بے قاعدہ دھڑکن)، اور ہارٹ فیل کا خطرہ نمایاں طور پر زیادہ پایا گیا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گردن کی موٹائی اور دل کی بے ترتیب دھڑکن کے درمیان تعلق سب سے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ یہ حالت خون کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتی ہے، خون کے لوتھڑے بننے کا باعث بنتی ہے اور بالآخر فالج کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہی عدم توازن دل کو کمزور کر کے ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ گردن کا سائز کورونری ہارٹ ڈیزیز سے جڑا ہوا ہے، جس میں شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں اور دل کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
گردن کی موٹائی صرف دل ہی نہیں بلکہ میٹابولک امراض کا بھی پیش خیمہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو نظر کی کمزوری، گردوں کی خرابی اور حتیٰ کہ اعضا کے کٹنے جیسی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک اور سنگین خطرہ سلیپ ایپنیا ہے، جس میں بھاری گردن کی وجہ سے رات کے وقت سانس رک جاتا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف دل پر دباؤ ڈالتا ہے بلکہ شدید تھکن اور حادثات کے خطرات میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
ماہرین نے واضح کیا ہے کہ گردن کی پیمائش ایک آسان مگر مؤثر طریقہ ہے۔ اس کے لیے صرف ایک پیمائشی ٹیپ درکار ہے جسے گردن کے سب سے پتلے حصے کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔ اگر مردوں کی گردن 17 انچ یا اس سے زیادہ اور خواتین کی 14 انچ یا اس سے زیادہ ہو تو انہیں صحت کے سنگین مسائل لاحق ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خطرات ان افراد پر بھی لاگو ہوتے ہیں جن کا بی ایم آئی نارمل ہو، یعنی وزن روایتی پیمانوں کے مطابق درست ہو۔ تحقیق کے مطابق گردن کے گھیرے میں ہر اضافی سینٹی میٹر موت اور اسپتال میں داخلے کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔
ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا ہے کہ گردن کی موٹائی کو کم کرنے کے لیے کارڈیو ایکسرسائز اور ویٹ ٹریننگ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ جسم کے بالائی حصے میں چربی گھٹاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معیاری نیند میٹابولک نظام کو بہتر بناتی ہے جبکہ پھلوں، سبزیوں اور دالوں سے بھرپور متوازن غذا اضافی کیلوریز کے بغیر ضروری غذائی اجزاء فراہم کرتی ہے۔
صحت کے ماہرین اس تحقیق کو بیماریوں کی بروقت تشخیص اور روک تھام کے لیے ایک بڑی پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بیماریوں کی پیشگوئی کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہی ہے، گردن کی پیمائش جیسے آسان اور سستے طریقے کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ سادہ پیمانہ لوگوں کو دل اور ذیابیطس کے مہلک خطرات سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اختتامی طور پر ماہرین نے زور دیا ہے کہ گردن کی پیمائش کو معمول کا حصہ بنایا جائے کیونکہ یہ صحت کے بارے میں وہ سچائی بیان کر سکتی ہے جو روایتی پیمانے نہیں بتاتے۔ گردن کی موٹائی دل کے امراض اور ٹائپ 2 ذیابیطس جیسے خطرات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اس لیے اس پر توجہ دینا زندگی بچانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔