
دریائے ستلج، راوی اور چناب میں بلند پانی کی سطح کے باعث وسطی و جنوبی پنجاب میں لاکھوں افراد متاثر ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی 2 ستمبر کو آبی ریلا داخل ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے بڑے دریاؤں میں بلند پانی کی سطح کے نتیجے میں سیلابی صورتحال نے وسطی اور جنوبی پنجاب میں تباہی مچادی ہے، جبکہ بلوچستان میں بھی بڑے ریلے کے داخل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق ملتان میں آج شام تک دریائے ستلج سے سیلابی ریلا داخل ہوگا جس کے باعث تین لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ متاثرہ افراد نے کشتیاں کم ہونے اور مویشیوں کی منتقلی کے ناقص انتظامات پر حکومت سے شکایت کی ہے۔
جلال پور پیر والا کے قریب دریائے ستلج سے 50 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، جس سے 140 دیہات زیرِ آب آچکے ہیں۔ راجن پور، بہاولپور اور وہاڑی میں بھی دریا کے کنارے کے نشیبی علاقے متاثر ہیں، جبکہ مقامی انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کرکے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔ دریائے ستلج کے ہیڈ گنڈاسنگھ والا، ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے، جس سے وہاڑی کی 133 بستیاں براہ راست خطرے میں ہیں۔
دریائے چناب میں بھی سیلاب کی شدت کم نہ ہوسکی اور ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک سے زائد کا ریلا جھنگ میں داخل ہوگیا، جس سے 140 دیہات متاثر اور جھنگ چنیوٹ روڈ ڈوب گیا۔ دباؤ کم کرنے کے لیے 1905 میں تعمیر کردہ تاریخی ریواز پل پر تین شگاف ڈالے گئے تاکہ ملتان اور مظفرگڑھ کی شہری آبادی کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔ حافظ آباد اور چنیوٹ کے درجنوں دیہات پہلے ہی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
دریائے راوی میں لاہور کے شاہدرہ پر پانی کی سطح میں کمی آئی ہے لیکن قصور اور ننکانہ صاحب کے علاقوں میں خطرہ برقرار ہے۔ دریائے جہلم میں بھی بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد 42 ہزار کیوسک کا ریلا داخل ہوا ہے جس نے آزاد کشمیر کے چکوٹھی اور مظفر آباد کے قریب صورتحال کو سنگین بنا دیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق دریا کے کنارے مقیم افراد کو فوری محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق اب تک صوبے میں 280 دیہات ڈوب گئے ہیں جبکہ 15 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ 28 افراد جاں بحق اور درجنوں لاپتہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور فوج، رینجرز اور ریسکیو ادارے مل کر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ صرف ننکانہ صاحب، حافظ آباد اور منڈی بہاؤالدین سے گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہزاروں افراد اور مویشیوں کو نکالا گیا ہے۔
دریائے سندھ پر واقع گڈو بیراج میں درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے، جہاں پانی کا بہاؤ ساڑھے تین لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس کے اثرات آئندہ دنوں میں سندھ کے نشیبی اضلاع پر پڑنے کا امکان ہے۔ بلوچستان میں بھی وزیر آبپاشی صادق عمرانی نے خبردار کیا ہے کہ 2 ستمبر کو دریائے سندھ سے آنے والا ریلا جعفر آباد، صحبت پور اور اوستہ محمد سمیت کئی علاقوں کو متاثر کرسکتا ہے۔
قصور میں حکام کے مطابق دریائے ستلج میں 1955 کے بعد سب سے بلند پانی آیا ہے اور شہر کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکپتن، سیالکوٹ اور ہیڈ مرالہ کے درجنوں دیہات بھی زیرِ آب ہیں، جہاں بیماریوں اور خوراک کی قلت نے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اب تک پنجاب کے 30 اضلاع میں بڑے پیمانے پر ریلیف اور ٹرانسپورٹیشن آپریشن جاری ہیں جن میں 669 کشتیاں اور 2861 ریسکیو اہلکار شریک ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور اور دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور شیلٹر کیمپس میں متاثرین کے لیے علاج، خوراک اور رہائش کے بہترین انتظامات کی ہدایت دی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے اچانک اور غیر اعلانیہ پانی چھوڑنے نے صورتحال کو مزید سنگین کردیا ہے۔ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق اگلے 24 سے 48 گھنٹے جنوبی پنجاب کے ملتان، مظفرگڑھ اور خانیوال کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سیلابی ریلے کے رخ اور شدت کو دیکھتے ہوئے بلوچستان اور سندھ کے متاثرہ اضلاع میں بھی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
ملک بھر میں دریاؤں کی بلند سطح اور بارشوں کے نئے اسپیل نے خطرات مزید بڑھا دیے ہیں، اور حکام کے مطابق فوری انخلا اور بروقت ریسکیو کارروائیاں ہی بڑے جانی نقصان سے بچنے کا واحد حل ہیں۔