
فیڈرل بورڈ آف ریونیو اگست میں 1.7 کھرب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 1.635 کھرب روپے ہی اکٹھا کر سکا، جس سے 65 ارب روپے کی کمی سامنے آئی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مالی سال کے دوسرے ماہ اگست میں ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے ملک کی مالیاتی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عبوری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے اگست میں 1.7 کھرب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 1.635 کھرب روپے جمع کیے، یعنی 65 ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ حتمی اعداد و شمار میں کمی کچھ کم ہوکر 45 سے 50 ارب روپے تک رہ سکتی ہے۔
اگرچہ رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ریونیو وصولی میں 13 فیصد یعنی 190 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن یہ رفتار مقررہ اہداف کے لیے ناکافی ہے۔ حکام نے اس سست روی کی بڑی وجوہات میں بجلی کے قومی گرڈ کے کم استعمال، صنعتی پیداوار کی کمی اور بعض نفاذی اقدامات کی واپسی کو قرار دیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پچھلے مالی سال میں بجلی کے بلوں کے ذریعے 125 ارب روپے اکٹھے ہوئے تھے، لیکن اس سال یہ رقم کم ہوکر صرف 86 ارب روپے رہی، جس سے شارٹ فال میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح صنعتی شعبے کی سست روی نے بھی ریونیو کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے اختتام پر بھی ایف بی آر اپنے سالانہ ہدف سے 1.2 کھرب روپے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس بار صورتحال مزید تشویشناک ہے کیونکہ رواں ماہ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ معیشت کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس دوران ایف بی آر کی موجودہ سہ ماہی کارکردگی بھی زیر بحث آئے گی، اور حکام کے مطابق یہ ادارہ کمزور کڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔
حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 14.13 کھرب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے جس کے حصول کے لیے کم از کم 20 فیصد اضافہ ضروری ہے۔ ایف بی آر نے اس مقصد کے لیے سخت اقدامات اور عدالتی مقدمات میں پھنسے ٹیکسز کی وصولی پر انحصار کیا تھا، لیکن حالیہ دنوں میں کچھ اہم اقدامات واپس لے لیے گئے ہیں۔ ان میں تاجروں کے بینک میں جمع کرائے گئے کیش کو بینکنگ ٹرانزیکشن نہ ماننے اور بڑی خریداری پر اثاثہ جات ظاہر کرنے کی شرط میں تاخیر جیسے فیصلے شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان تبدیلیوں نے ریونیو اکٹھا کرنے کی صلاحیت کو براہ راست متاثر کیا۔
تفصیلات کے مطابق دو ماہ میں انکم ٹیکس کی مد میں 695 ارب روپے جمع ہوئے، جو ہدف کے مطابق ہیں، جبکہ سیلز ٹیکس سے 625 ارب روپے وصول ہوئے، جو 65 ارب روپے کم رہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت 113 ارب روپے اکٹھے کیے گئے جو ہدف سے کچھ کم ہیں، البتہ کسٹمز ڈیوٹی میں کارکردگی بہتر رہی اور 200 ارب روپے وصول کرکے ہدف سے زائد رقم جمع کی گئی۔ اگست کے مہینے میں مجموعی طور پر ایف بی آر نے 951 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 887 ارب روپے اکٹھے کیے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ضرور ظاہر کرتا ہے، مگر حکام کے نزدیک یہ رفتار ناکافی اور تشویشناک ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے نفاذی اقدامات کی منظوری نہ دی تو حکومت کو 400 سے 500 ارب روپے کے اضافی ریونیو اقدامات کرنے پڑیں گے۔ موجودہ صورتحال میں یہ خدشہ مزید بڑھ گیا ہے کہ پاکستان کو بجٹ کے اہداف پورے کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل شارٹ فال اور آمدنی کے ہدف میں ناکامی پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام اور بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹوں میں ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ ایف بی آر کی کارکردگی آئندہ مہینوں میں نہ صرف ملکی مالی پالیسی بلکہ بیرونی قرضوں کی شرائط پر بھی براہ راست اثر ڈالے گی۔
اختتامی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگست کا 65 ارب روپے کا شارٹ فال نہ صرف ایف بی آر کے لیے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے، اور اگر بروقت اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو سالانہ 14.13 کھرب روپے کے ہدف کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔