انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی جانب سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے اور دھوکا دہی کے حقائق منظر عام پر آگئے جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض بجلی گھروں نے غلط معاہدوں کے باعث بغیر بجلی پیدا کیے حکومت سے اربوں روپے وصول کیے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز نے بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں پاکستان میں اسی پیداواری صلاحیت کے ونڈز پلانٹس چار گنا مہنگے لگائے یعنی اوور انوائسنگ کی، آئی پی پیز پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کے باوجود ڈیزل اور درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے مہنگی بجلی پیدا ہورہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی پی پیز نے جتنا فیول منگوایا، اتنی بجلی پیدا نہیں کی اور حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بھی حاصل کی، آئی پی پیز نے پلانٹس کی دیکھ بھال کی مد میں بھی اربوں روپے وصول کیے جب کہ جتنی رقم وصول کی گئی پلانٹس کی دیکھ بھال پر اس کی چوتھائی رقم بھی خرچ نہیں ہوتی، آئی پی پیز حکومت کے دباؤ کے باوجود فرانزک آڈٹ نہیں کروا رہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ حکومت پاکستان آئی پی پیز کی انشورنس بھی خود برداشت کر رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے ابتدا میں آئی پی پیز لگانے کے اخراجات برداشت کیے، ٹیکس ڈیوٹی، انشورنس میں بھی سہولیات دیں لیکن معاہدہ ختم ہونے پر پلانٹ حکومت کی ملکیت نہیں ہوں گے، آئی پی پیز کے بیشتر مالکان لوکل ہیں لیکن معاہدے بعض فارنرز کے نام پر کیے گئے۔
آئی پی پیز سے غلط معاہدوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جب کہ آئی پی پیز کی ملی بھگت سے ملک کو اربوں روپےکا نقصان ہوچکا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیشتر آئی پی پیز پر چند با اثرخاندانوں کی اجارہ داری ہے، آئی پی پیز اپنی لاگت سے سیکڑوں گنا منافع کما چکے ہیں، اس لیے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے۔
واضح رہے ایک ایسے وقت میں جب ٹیکس دہندگان محصولات کی بلند شرح سے پریشان ہیں، کہ گزشتہ ماہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو 1990 کی دہائی کے وسط سے 24-2023 تک 12.17 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ ملی ہے۔
سرکاری ذرائع سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ آئی پی پیز کے لیے ٹیکس استثنیٰ کیپیسٹی چارجز سے تجاوز کر گئے ہیں، جس کا حجم رواں مالی سال 20.91 کھرب روپے ہونے کی توقع ہے، یہ آئی پی پیز 40 بااثر خاندانوں کی ملکیت ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق پاور کوریڈورز سے ہے۔
ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں یکم جولائی 1988 کے بعد قائم ہونے والے الیکٹرک پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹ حاصل کرتی ہیں۔
اس کے بعد سے جمہوریت اور آمرانہ طرز حکومتوں نے تاحیات ٹیکس چھوٹ کی رعایت کے ساتھ تقریباً 5 پاور پالیسیوں کو نافذ کیا جبکہ 106 آئی پی پیز قائم ہوئے۔
ڈان کو دستیاب سرکاری ریکارڈ سے پتا چلا کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے 2019-2018 تک معاشی سروے میں آئی پی پیز کو ٹیکس چھوٹ کا ڈیٹا فراہم کیا لیکن اس کے بعد جب ٹیکس چھوٹ کی مالیت میں اضافہ ہوا تو انہوں نے معلومات کو ظاہر کرنا بند کردیا۔
اس کے بجائے استثنیٰ کی لاگت کو دوسرے شعبوں کے ساتھ ملادیا گیا تاکہ اسے لوگوں سے چھپایا جا سکے۔
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق 1990 کی دہائی کے وسط سے 2018-2017 تک ان ٹیکس چھوٹ کی مالیت ایک کھرب روپے تھی، انہوں نے اس رقم کا تخمینہ ’پالیٹیکل اکانومی آف انیکویلیٹی ان پاکستان‘ پر اپنی تحقیق کے حصے کے طور پر لگایا۔
حفیظ پاشا کے مطابق آئی پی پیز قیمتوں کا تعین کرنے کے سازگار طریقہ کار کی ایک اہم مثال ہیں جس میں بجلی کے ٹیرف اس طریقے سے طے کیے گئے ہیں کہ حکومت ان کے کیپیسٹی چارجز اور ایندھن کے اخراجات کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے،
لاگت کے علاوہ قیمتوں کا تعین کرنے کے اس طریقے نے ممکنہ صلاحیت کے کم استعمال کی وجہ سے آئی پی پیز کے لیے مارکیٹ کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے، کچھ نے مختلف سالوں میں ایکویٹی پر 25-30 فیصد ریٹرن کا لطف اٹھایا ہے۔ اس پالیسی نے ملک میں آئی پی پیز کے قیام کی راہیں کھول دیں۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 1988 کے بعد پاور پالیسی کے نتیجے میں 2002 تک پانچ بڑے آئی پی پیز قائم ہوئے تھے، ان میں سے 4 آئی پی پیز نے اپنے بجلی کی خریداری کے معاہدے مکمل کر لیے اور اب صرف ایک آئی پی پی حب پاور کمپنی باقی رہ گئی جو اسی مراعات پر بجلی پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں 2002 سے 2008 کے درمیان کل 10 نئے آئی پی پیز قائم کیے گئے، 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ٹیکس چھوٹ حاصل کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید 10 آئی پی پیز قائم کی گئیں۔
2013 سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران آئی پی پیز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا جہاں مجموعی طور پر 55 نئے پاور پلانٹس لگائے گئے، 2018 سے 2023 تک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں میں 40 اضافی آئی پی پیز قائم کی گئیں۔
اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بتایا گیا ہے کہ 2014 سے 2016 کے دوران آئی پی پیز کے لیے ٹیکس چھوٹ تقریباً 51.5 ارب روپے تھی۔
اس کے بعد 2 سالوں میں 2017 سے 2019 میں ٹیکس چھوٹ گر کر 18 ارب روپے رہ گئی، حکومت نے چھوٹ کی رقم میں کمی کا جواز پیش نہیں کیا،
مالی سال 2020 میں آئی پی پیز کے لیے چھوٹ 26.88 ارب روپے تک بڑھ گئی، جو مالی سال 2021 میں نمایاں طور پر بڑھ کر 47.528 ارب روپے تک پہنچ گئی، استثنیٰ کی رقم میں اضافے کو مزید پاور پلانٹس کے قیام کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے،
پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کی وجہ سے مالی سال 2022 میں استثنیٰ کی حد کم ہو کر 37.45 ارب روپے ہو گئی تھی۔
حاصل استثنیٰ مالی سال 2023 میں 56.02 ارب روپے تک پہنچ گئیں لیکن مالی سال 2024 میں کم ہو کر 30.23 ارب روپے تک پہنچ گئی تھیں۔