منگل , اکتوبر 14 2025

ایل این جی درآمدات میں اضافے سے نمٹنے کے لیے قطر سے مذاکرات کی تیاری

پاکستان ایل این جی کارگوز کی تعداد کم کرنے کے لیے قطر انرجی کو چار آپشنز پیش کرے گا کیونکہ موجودہ معاہدوں میں کمی کی گنجائش محدود ہے۔

وزارت پیٹرولیم کے ذرائع کے مطابق حالیہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان اور قطر کے درمیان 2015 میں ملک میں گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایل این جی سپلائی کا ایک ایم او یو طے پایا تھا۔ اس کے بعد حکومتِ پاکستان کے نامزد ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے قطر انرجی کے ساتھ دو بڑے معاہدے کیے جو ’’ٹیک یا پے‘‘ بنیاد پر تھے اور انہیں کابینہ و ای سی سی سے منظوری ملی۔ اس کے علاوہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے مسابقتی بولی کے ذریعے اطالوی کمپنی اینی کے ساتھ بھی ایک 15 سالہ معاہدہ کیا، جس کے تحت 2017 سے ہر ماہ ایک کارگو کی فراہمی شروع ہوئی۔

ان معاہدوں کی تفصیلات کے مطابق پی ایس او نے 2016 میں قطر انرجی کے ساتھ پہلا معاہدہ کیا جس کے تحت 15 سال تک ہر ماہ 5 کارگوز کی فراہمی 13.37 فیصد برینٹ پر طے ہوئی۔ دوسرا معاہدہ 10 سال کے لیے تھا جس کے تحت ماہانہ 4 کارگوز 10.2 فیصد برینٹ پر فراہم کیے جانے ہیں۔ اسی طرح پی ایل ایل نے اینی کے ساتھ 12.05 فیصد برینٹ پر ماہانہ ایک کارگو کی فراہمی کا معاہدہ کیا۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان کو ہر سال تقریباً 6.75 ملین میٹرک ٹن ایل این جی (108 کارگوز) وصول کرنا لازمی ہے۔

تاہم وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) نے ای سی سی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حالیہ برسوں میں ایل این جی کی طلب کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سرپلس کارگوز کا مسئلہ سامنے آ رہا ہے۔ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے مطابق آر ایل این جی پر چلنے والے بجلی گھروں اور کیپٹیو پاور پلانٹس کی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ کیپٹیو ٹیرف بڑھایا گیا اور آف-دی-گرڈ لیوی عائد کی گئی ہے۔ تخمینوں کے مطابق جولائی 2025 سے 2031 تک تقریباً 177 ایل این جی کارگوز زائد ہو جائیں گے، جس سے نظام میں گیس کی فراہمی اور استعمال میں عدم توازن مزید بڑھ سکتا ہے۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر پی ایس او اور ایس این جی پی ایل نے قطر انرجی سے کارگوز کی تعداد میں کمی پر بات چیت کرنے کی درخواست کی ہے۔ تاہم حکام نے ای سی سی کو آگاہ کیا کہ معاہدوں میں اس سلسلے میں بہت محدود سہولت موجود ہے۔ دونوں معاہدوں میں مجموعی طور پر صرف 10 کارگوز کم کرنے کی اجازت ہے اور ہر سال یکم اکتوبر تک درخواست دینا لازمی ہے۔ پی ایس او نے 2025 کے لیے اس سہولت کے تحت 5 کارگوز مؤخر کرنے کا اختیار استعمال کر لیا ہے۔

فی الوقت حکومت اس سرپلس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مقامی گیس فیلڈز کی پیداوار کو کم کر رہی ہے تاکہ ’’ٹیک یا پے‘‘ ڈیمریجز سے بچا جا سکے۔ تاہم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کمپنیوں نے خبردار کیا ہے کہ مقامی گیس کی پیداوار میں کمی ذخائر کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور طویل مدتی توانائی سلامتی کو متاثر کر سکتی ہے۔

وزارت پیٹرولیم کے مطابق قطر کے ساتھ موجودہ معاہدے ’’ٹیک یا پے‘‘ نوعیت کے ہیں، یعنی پاکستان کو کارگوز وصول کرنے یا ان کی ادائیگی ہر صورت کرنی ہوگی۔ اگرچہ کارگوز کی منتقلی یا کمی کے لیے ’’نیٹ پروسیڈ ڈفرینشل‘‘ میکانزم موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد آئندہ سال کے ’’اینول ڈلیوری پلان‘‘ کی منظوری سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے قطر کو چار مختلف آپشنز پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مستقبل میں اضافی کارگوز کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

پاکستان کی توانائی کی پالیسی میں ایل این جی کی درآمدات ہمیشہ ایک حساس معاملہ رہا ہے۔ 2015 کے بعد ایل این جی کے ذریعے بجلی گھروں اور صنعتی یونٹس کی طلب پوری کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم طلب و رسد میں حالیہ عدم توازن نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا طویل مدتی درآمدی معاہدے پاکستان کی توانائی ضروریات کے مطابق ہیں یا نہیں۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کو ’’ٹیک یا پے‘‘ معاہدوں پر تنقید کا سامنا رہا ہے کیونکہ ان میں لچک کی کمی ملک کے لیے مالی دباؤ پیدا کرتی ہے۔

توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اضافی ایل این جی کارگوز کے مسئلے کا حل فوری طور پر نہ نکالا گیا تو اس سے نہ صرف مالی نقصان ہوگا بلکہ مقامی گیس فیلڈز کے ذخائر پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب قطر کے ساتھ تعلقات پاکستان کی توانائی سپلائی چین میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے مذاکرات میں سفارتی اور معاشی پہلوؤں کو یکجا کرنا ہوگا۔

توانائی کے شعبے کے مبصرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق اپنی درآمدی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ مقامی پیداوار، متبادل توانائی اور درآمدی گیس کے درمیان بہتر توازن قائم ہو سکے۔ ایل این جی معاہدوں پر نظرثانی کے لیے قطر کے ساتھ یہ مذاکرات پاکستان کی توانائی حکمتِ عملی کے اگلے مرحلے کا تعین کریں گے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

سمندری کیبل کی مرمت سے انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے کا امکان

پی ٹی سی ایل کے مطابق بین الاقوامی کیبل کی مرمت کا کام آج صبح …