
چیئرمین مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) ڈاکٹر کبیر سدھو نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو چینی بحران کی وجوہات پر بریفنگ میں بتایا ہے کہ شوگر ایڈوائزی بورڈ نے گزشتہ سال حکومت کو درست تخمینہ فراہم نہیں کیا تھا، غلط تخمینوں کی بنیاد پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کردیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس کے دوران چیئرمین سی سی پی ڈاکٹر کبیر سدھو نے چینی بحران کی وجوہات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چینی کی برآمدات سے ملک میں چینی کے ذخائر ضرورت سے کم ہوگئے تھے۔
شوگر ایڈوائزی بورڈ نے گزشتہ سال جون سے اکتوبرکے دوران گنے کی پیداوار، دستیاب اسٹاک اور چینی کی پیداوار سے متعلق حکومت کو درست تخمینہ نہیں بتایا تھا، غلط تخمینوں کی بنیاد پر حکومت نے برآمد کی اجازت دے دی تھی۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ فیصلہ سازی شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فراہم کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے، فیصلہ سازی کے لیے آزادانہ اور شفاف ڈیٹا حاصل کیا جائے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ مسابقتی کمیشن شوگر سیکٹر ریفارم کمیٹی کی معاونت کے لیے تجاویز تیار کر رہا ہے، اجلاس میں وزیر خزانہ کو 09-2008، 16-2015، 20-2019 کے چینی بحران کی وجوہات پر بھی بریفنگ دی گئی۔
مسابقتی کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ ماضی کے تمام چینی بحرانوں میں بھی چینی کی برآمدات کرنے کے لیے سپلائی محدود کی گئی تھی، شوگر سیکٹر کارٹل کے خلاف 2010، 2021 میں احکامات جاری کیے گئے تھے۔
2009-10 کی شوگر انکوائری میں کارٹلائزیشن کے واضح ثبوت سامنے آئے تھے، 2010 کا شوگر کارٹل کا فیصلہ آج تک منظر عام پر نہیں لایا جا سکا، سندھ ہائی کورٹ نے 2021 تک اسٹے دیے رکھا اور اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
مسابقتی ٹربیونل نے 2021 کا فیصلہ دوبارہ سماعت کے لیے کمیشن کو بھجوا دیا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شوگر سیکٹرکو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد مسابقتی کمیشن کا کردار بڑھ جائے گا، تحقیقات میں معاونت کے لیے دیگر اداروں سے ڈیٹا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔