پیر , اکتوبر 13 2025

ایف آئی اے کا متحدہ عرب امارات میں گولڈن ریذیڈنسی کارڈ ہولڈرز کے خلاف کریک ڈاؤن

ایف آئی اے کی امیگریشن ڈیٹا کے مطابق، دبئی/متحدہ عرب امارات میں 20 لاکھ اماراتی درہم یا اس سے زائد کی جائیداد میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی رہائشیوں کی شناخت کر لی گئی ہے، اور ان کے خلاف انکم ٹیکس قوانین اور اینٹی منی لانڈرنگ ضوابط کے تحت بڑا کریک ڈاؤن جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق، ہزاروں پاکستانی شہری ایسے ہیں جن کے پاس 10 سالہ گولڈن ویزا (ریذیڈنسی/اقامہ) ہے، جو کم از کم 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں جاری کیا گیا۔ یہ افراد پاکستان سے روانگی یا آمد کے وقت ایف آئی اے امیگریشن کاؤنٹرز پر یہ گولڈن ریذیڈنسی کارڈ استعمال کرتے ہیں، جسے اسکین کر کے ایف آئی اے امیگریشن پورٹل پر محفوظ کیا جاتا ہے۔

اس اقامہ میں درج معلومات میں شامل ہوتے ہیں: پاکستانی پاسپورٹ نمبر اور نام، پیشہ: پراپرٹی اونر، اسپانسر: خود اسپانسر، اور اجرائی/معیاد ختم ہونے کی تاریخ: 10 سال۔

اس ڈیٹا سے باآسانی اس سرمایہ کار کی شناخت کی جا سکتی ہے، اور یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا اس نے دبئی/متحدہ عرب امارات میں کی گئی سرمایہ کاری کو اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیا ہے یا نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثریت نے نہ تو ان جائیدادوں کو اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیا ہے، نہ ہی ان سے حاصل ہونے والی آمدنی یا سرمایہ منافع کو اپنے انکم ٹیکس گوشوارے میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح غیر ملکی اثاثوں پر عائد کیپٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی) بھی ادا نہیں کیا گیا۔

ٹیکس کنسلٹنٹ شاہد جامی کے مطابق پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک ٹیکس معاہدہ موجود ہے جس میں معلومات کے تبادلے سے متعلق شق بھی شامل ہے، تاہم متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی ٹیکس حکام کو تاحال معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

اسی طرح، آٹو میٹک انفارمیشن ایکسچینج معاہدے کے تحت بھی مالیاتی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں کیونکہ بینک اکاؤنٹس کھولتے وقت پاکستانی پاسپورٹ کے بجائے اماراتی اقامہ بطور شناختی دستاویز استعمال کیا جاتا ہے۔

شاہد جامی نے بتایا کہ ان وجوہات کی بنیاد پر اکثر افراد اپنی غیر ملکی سرمایہ کاری کو ظاہر نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ غیر رسمی ذرائع سے رقم کی منتقلی بھی نسبتاً آسان اور سستی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ٹیکس دہندگان جنہوں نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت غیر ملکی اثاثے ظاہر کیے تھے، اب خود کو پچھتاوے کی حالت میں پاتے ہیں، کیونکہ جنہوں نے ظاہر نہیں کیے وہ بغیر کسی خوف کے حکومتی ریڈار سے باہر ہیں۔

شاہد جامی نے وضاحت کی کہ موجودہ ٹیکس قوانین کافی سخت ہو چکے ہیں، اور غیر ملکی اثاثوں کے معاملے میں پہلے والا پانچ سالہ وقت کی حد اب لاگو نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ٹیکس دہندگان کو غیر ملکی اثاثے چھپانے سے گریز کرنا چاہیے اور زرمبادلہ کے ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ قانونی طریقے سے بیرون ملک سرمایہ کاری اور جائز ٹیکس فری آمدنی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹیکس پلاننگ اسکیمز موجود ہیں، اور کچھ ذمہ دار ٹیکس دہندگان پہلے ہی ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …