
منصوبہ بندی کمیشن نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے 41 ارب روپے مالیت کے ریونیو بڑھانے کے منصوبے کے تحت 179 گاڑیوں، جن میں 15 مکمل طور پر بلٹ پروف یونٹس شامل ہیں، کی خریداری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 2.237 ارب روپے کی مجوزہ لاگت پر نظرِثانی کا مطالبہ کیا ہے،
منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق ایف بی آر کا ریونیو بڑھانے کا یہ منصوبہ خاص طور پر وزارتِ خزانہ کی کفایت شعاری کی ہدایات کے برخلاف ہے ۔اکمیشن نے مزید کہاکہ ایف بی آران اخراجات کو وزارتِ خزانہ کی کفایت شعاری کی پالیسی کے مطابق معقول بنائے
کمیشن نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ ورلڈ بینک کے 150 ملین ڈالر کے قرض سے مالی اعانت یافتہ ہے، جس پر سالانہ شرحِ سود 2.5 فیصد ہے اور یہ 30 سال کے لیے لیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ وزیرِاعظم کے ایف بی آر کی اصلاحات کے منصوبے کا مرکزی جزو ہے۔ اگرچہ منصوبے کے اقتصادی اشارئیے بہت مثبت ہیں اس کا بینیفٹ-کاسٹ ریشو 42 سے 70 کے درمیان اور داخلی شرح منافع (IRR) 130 فیصد سے 195 فیصد کے درمیان ہے تاہم منصوبہ بندی کمیشن نے اس کے نفاذ میں، خاص طور پر گاڑیوں کی خریداری کے معاملے میں، ناکافی نگرانی کی نشاندہی کی ہے۔
ڈیجیٹل انفورسمنٹ یونٹس کے لیے مختلف ساخت کی 179 گاڑیوں کی خریداری کے لیے 2,237.5 ملین روپے تجویز کیے گئے ہیں، جن کی فی یونٹ لاگت 12.5 ملین روپے رکھی گئی ہے، مگر گاڑیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں،
دوسری جانب، ایف بی آر نے اس خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مختلف علاقوں میں مجوزہ ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشنز کے لیے آپریشنل ضروریات کے تحت ناگزیر ہے۔
ایف بی آر نے کہاکہ تجویز کردہ گاڑیاں فیلڈ آپریشنز کے لیے کم سے کم ضروری خصوصیات کی حامل ہیں، جن میں کسی بھی قسم کی آسائش شامل نہیں کی گئی۔ ان کی چنا مکمل طور پر انسدادِ اسمگلنگ کی کارکردگی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ منصوبے کی تکمیل جون 2027 تک متوقع ہے۔
ایف بی آر نے مزید کہا کہ منصوبے کے تحت مواصلاتی ٹیکنالوجی (ICT) کے ہارڈویئر میں کی گئی سرمایہ کاری سے، نئے آلات اور ان کے آپریشن و دیکھ بھال کی لاگت سمیت، 100 ملین ڈالر کی بچت متوقع ہے۔
ایف بی آر نے مئوقف اختیار کیا ہے کہ ادارے کے ڈیٹا سینٹر اور نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچے میں یہ سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ اگر ایف بی آر جلد یہ اپ گریڈنگ نہ کرے تو اسے ڈیٹا سینٹرز کی دوبارہ تعمیر پر تقریبا 200 ملین ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔
منصوبہ بندی کمیشن نے نشاندہی کی کہ منصوبے کے اختتام تک کسٹمز کلیئرنس کے وقت کا ہدف 97.5 گھنٹے کی بنیادی سطح سے کم ہو کر 48.5 گھنٹے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام، جس کا آغاز 2017 میں کیا گیا تھا، کا مقصد ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 17 فیصد تک لے جانا ہے، جو اب بھی تقریبا 10 فیصد پر ہے جو کہ ایشیا پیسفک کے اوسط 19.3 فیصد سے خاصا کم ہے۔
منصوبہ بندی کمیشن نے ٹیکس نظام کو سادہ بنانے، ٹیکسوں کی تعداد کم کرنے اور معیشت کے وسیع تر دھارے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نظام کی ڈیجیٹلائزیشن کو تیز کرنے کی سفارش کی۔