
مرکز نے وسائل کی تقسیم کے لیے ایک نئے فارمولے کو حتمی شکل دینے کے لیے 11 ویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ کرلیا۔
وزارت خزانہ کے مطابق مرکز نے ان شعبوں میں بھی 638 ارب روپے خرچ کیے ہیں جو آئین کے تحت صوبائی معاملات ہیں۔ چاروں صوبوں، اسلام آباد اور خصوصی علاقوں میں 638 ارب روپے کے اخراجات کسی بھی ترقیاتی اخراجات کے علاوہ ہیں۔
وفاق کی رقم کا ایک بہت بڑا حصہ کوئی قانونی ذمے داری نہ ہونے کے باوجود اب بھی صوبائی معاملات میں خرچ ہو رہا ہے۔ وزارت خزانہ نے نئے کمیشن کو نوٹیفائی کرنے سے قبل پہلی مرتبہ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے موضوعات پر وفاقی حکومت کے موجودہ اخراجات کا احاطہ کرنے والی تحریر کو عام کیا ہے۔
وزارت نے کہا یہ وہ معاملات ہیں جو آئین کی 18ویں ترمیم کے اپریل 2010 میں نافذ ہونے کے بعد صوبوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ پر چاروں صوبوں، خصوصی علاقوں اور ضلع اسلام آباد میں مجموعی طور پر 638 ارب روپے خرچ کیے ہیں ۔
یہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 36 ارب روپے زیادہ ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے 28 اپریل کے اجلاس کے دوران وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کو بتایا کہ وہ 8ویں ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے 11ویں قومی مالیاتی کمیشن (نیشنل فنانس کمیشن ) کی تشکیل کی تیاری کر رہی ہے۔
وفاق نے پہلے ہی صوبوں کو خطوط لکھ کر تکنیکی ارکان کے لیے نامزدگیوں کی درخواست کی تھی۔ سندھ نے دوبارہ ڈاکٹر اسد سعید کو اپنا تکنیکی رکن نامزد کیا ہے۔ ہر حکومت کا ایک وزیر خزانہ اور تکنیکی رکن کمیشن میں شامل ہوتا ہے۔ کمیشن پانچ سال کی مدت کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔
10واں کمیشن 8 ویں ایوارڈ کو حتمی شکل دیے بغیر 23 جولائی کو اپنی مدت پوری کرنے جا رہا ہے۔ آخری ایوارڈ کو 2010 میں حتمی شکل دی گئی تھی جس کی میعاد 2015 میں ختم ہو گئی تھی۔ اس وقت سے صدر پاکستان ہر سال ایڈہاک بنیادوں پر آخری متفقہ ایوارڈ میں توسیع کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیر پی کے کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو میں کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت پر CCI میں 10ویں کمیشن کا اجلاس بلانے اور عبوری ایوارڈ کا اعلان کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
انہوں نے کہا کے پی حکومت نے ابھی تک 11ویں کمیشن کے لیے اپنا تکنیکی رکن اس وجہ سے نامزد نہیں کیا کہ وہ بجٹ سے پہلے 10ویں کمیشن کا اجلاس چاہتی ہے تاکہ خالص ہائیڈل منافع اور انضمام شدہ اضلاع کی مد میں اسے اپنا حصہ مل جائے۔ 7ویں ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 57.5 فیصد وسائل ملتے ہیں ۔
وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی حکومت نے سماجی تحفظ پر 466 ارب روپے خرچ کیے جس میں وہ 350 ارب روپے بھی شامل ہیں جو چاروں صوبوں میں خرچ کیے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے بی آئی ایس پی کے تحت پنجاب میں 169 ارب روپے، سندھ میں 96 ارب روپے، کے پی میں 67 ارب روپے اور بلوچستان میں 18 ارب روپے جاری کیے ہیں۔ وزارت خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان بیت المال کے ذریعے وفاق نے 7.4 ارب روپے خرچ کیے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران صحت کے شعبہ میں وفاق نے 45ارب روپے خرچ کیے۔ ان 45ارب روپے میں سے ملازمین پر 12ارپ روپے ، آپریشنز پر مزید 12 ارب روپے اور امیونائزیشن کے توسیعی پروگرام پر 21.3 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کے تحت پنجاب میں 11.2 بلین روپے، سندھ میں 5.1 بلین روپے، کے پی میں 1.2 بلین روپے اور بلوچستان میں 3.5 بلین روپے خرچ کیے گئے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پر 5.2 بلین روپے اور فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک پر 4 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
صحت پر وفاقی حکومت کے اخراجات نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کا بھی احاطہ کیا۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام شیخ زید ہسپتال لاہور کے لیے بھی 4.9 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ وزارت خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں تعلیم پر 114 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اس میں سے زیادہ تر رقم صوبوں میں خرچ ہوئی