google.com, pub-3199947851844297, DIRECT, f08c47fec0942fa0 گوادر میں 29گھنٹے لگاتار بارش: وجہ کیا بنی؟۔۔بی بی سی رپورٹ - UrduLead
پیر , دسمبر 23 2024

گوادر میں 29گھنٹے لگاتار بارش: وجہ کیا بنی؟۔۔بی بی سی رپورٹ

بارش اور سیلابی پانی نے ہمارا سب کچھ برباد کر دیا، اس وقت ہمارے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے، اور نہ پینے کو صاف پانی۔

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والی آمنہ بی بی کے جن کا گھر بار گذشتہ روز گوادر میں ہونے والی طوفانی بارش اور سیلابی ریلے سے شدید متاثر ہوا ہے۔

آمنہ بی بی نے فون پر بی بی سی اردو کو طوفانی بارش کے بعد علاقے کی صورتحال کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کوئی بھی ہمارے پاس مدد کے لیے نہیں آیا جس کی وجہ سے ہم شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی حکومت ہے تو اس کو عوام کی مدد کے لیے آنا چاہیے کیونکہ لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ لوگوں کو پینے کے صاف پانی اور خوراک کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں گذشتہ روز سے جاری طوفانی بارش سے گوادر شہر کے علاوہ سربندن اور جیونی سمیت بہت سے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔

طوفانی بارش کے باعث گوادر شہر اور دیگر متعدد علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے لوگوں نے رات جاگ کر گزاری ہے۔

آمنہ بی بی نے کہا کہ لوگوں کے گھروں اور محلوں سے جلد سے جلد پانی کو نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کوئی امداد نہیں ملتی تو لوگ خود اپنے لیے خوراک اور پانی کا انتظام کریں۔

سہرابی وارڈ ہی کے ایک اور رہائشی ناصر بلوچ نے فون بی بی سی کو بتایا کہ لوگوں کے گھر پانی سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے لیے اس میں رہائش اختیار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری حکام سے کہا جائے کہ وہ لوگوں کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کچھ کریں۔

گودار کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
گوادر کے مقامی صحافی جاوید بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں بارش کا سلسلہ 27 فروری کی شام چار بجے شروع ہوا تھا جو کہ آج علی الصبح تک جاری رہا۔

24 گھنٹے سے زائد بارش ہوئی اور پانی کے نکاس کے لیے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے بہت سارے علاقے زیر آب آ گئے ہیں۔

انھوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے صبح سے ان تمام علاقوں کا دورہ کیا ہے جہاں لوگوں کو سیلابی پانی کی وجہ سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوری طور پر گھروں اور محلوں سے پانی کو نکالنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ چونکہ لوگوں کے پینے کے پانی کے ذرائع متاثر ہونے کے علاوہ سیلابی پانی کی وجہ سے ان کے لیے گھروں میں کھانا پکانا مشکل ہے اس لیے لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی اور خوراک کی فوری ضرورت ہے۔

گوادر کے سینیئر صحافی بہرام بلوچ نے بتایا کہ ابھی تک گوادر کے زیادہ تر علاقے زیر آب ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جو علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں ملا بند، شادو بند، سہرابی وارڈ ، فقیر کالونی، اولڈ ٹائوں کے علاوہ بعض دیگر علاقے شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر سے اگرچہ پانی کو نکالنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن وہ پانی اور متاثرہ علاقوں کے مقابلے میں کم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سردی کا موسم بھی ہے اور اگر گھروں اور محلوں سے پانی کو نکالنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہوئے تو لوگوں کی مشکلات بالخصوص خواتین اور بچوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

بہرام بلوچ نے بتایا کہ جہاں گھروں میں لوگوں کا نقصان ہوا ہے وہاں تاجروں کا بھی نقصان ہوا ہے کیونکہ ملا فاضل چوک سمیت دیگر علاقوں میں دکانوں کے اندر بھی پانی گیا ہے۔

گوادر شہر کے علاوہ اس کے مضافاتی علاقے سربندن اور جیوانی میں بھی بارشوں سے گھروں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ متعدد اہم شاہرائیں اور رابطہ سڑکیں بھی ٹوٹ گئیں ہیں۔

سربندن سے جو ویڈیوز منظر عام پر آئیں ان میں لوگوں کو کشتیوں میں نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

جیونی سے جاوید شے بلوچ نے فون پر بتایا کہ حفاظتی بند کے ٹوٹنے سے جیونی میں ماہی گیروں کی کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈھائی سو کے لگ بھگ کشتیوں کو نقصان پہنچا جن میں سے بعض کو پانی بہا لے گیا ہے جبکہ بہت سی ٹوٹ گئیں ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر گوادر میں طوفانی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق مخلتف تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی جا رہی ہے جن میں علاقے کو بلوچستان اور کراچی سے ملانے والی رابطہ سڑکوں پر پانی دیکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر متعدد صارفین سیو گوادر کا ٹرینڈ بھی چلا رہے ہیں جبکہ متعدد صارفین صوبائی حکومت کو بروقت امدادی سرگرمیاں نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی رہنما بشری گوہر نے اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ این ڈی ایم اے مقامی افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے کیا کر رہا ہے، بلوچستان کے ہنگامی حالات کے ادارے کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ وہاں پھنسے خاندانوں کو ہنگامی بنیادوں پر نکالنے کی ضرورت ہے، متاثرہ آبادی تک خوراک اور ادویات پہنچنا چاہییں اور ہنگامی حالات کے بعد وہاں بحالی کا کام فورا شروع کیا جانا چاہیے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما ظہور بلیدی نے لکھا کہ گوادر میں گذشتہ دو روز سے جاری موسلادھار بارش نے علاقے میں روزمرہ زندگی مفلوج کر دی ہے۔ وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو وہاں فوری ریسیکیو اور بحالی کے کام شروع کرنے چاہییں۔

تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام متعلقہ صوبائی اور وفاقی محکموں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے گوادر سمیت پاکستان کا ساحلی علاقہ بار بار طوفانوں اور طوفانی بارشوں کی زد میں آ رہا ہے جو ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی میں مزید ہوشیار رہنے اور تیار رہنے کی یاد دلاتا ہے۔

حکام کا کیا کہنا ہے؟
حکومت بلوچستان کے ترجمان جان محمد اچکزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ گوادر میں 16 سال بعد پہلی مرتبہ اتنی زیادہ بارش ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں پانی کی وجہ سے چیلنج بہت بڑا ہے، تاہم لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گوادر میں موجود ہیں اور اس وقت وہاں مقامی سطح پر جو بھی وسائل ہیں ان سب کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گوادر میں لوگوں کو ریسکیو کرنے اور ان کو ریلیف کی فراہمی کے لیے تمام اداروں کو متحرک کیا گیا ہے جبکہ نیوی اور فوج کی بھی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں ۔

جان محمد اچکزئی نے بتایا کہ گوادر کی صورتحال کے حوالے سے وزیر اعظم سے بھی بات ہوئی ہے۔ بلوچستان حکومت کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد لوگوں کو خوراک، اشیا کی فراہمی کے علاوہ دیگر ریلیف فراہم کرے۔

درایں اثنا وزیر اعلی بلوچستان علی مردان ڈومکی نے گوادر اور گرد و نواح میں بارشوں اور سیلابی صورتحال پر اظہار افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کو مربوط کارروائیوں کی ہدایت کی ہے۔

اپنے ایک بیان میں وزیر اعلی نے کہا کہ گوادر میں مسلسل بارشوں سے غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ ریسکیو کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ رابطہ سڑکیں زیر آب آنے سے ریسکیو کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

میونسپل کمیٹی گوادر کے چیئرمین شریف میانداد نے بتایا کہ 29 گھنٹے کی مسلسل بارش کی وجہ سے گوادر شہر ڈوب گیا ہے۔

انھوں نے فون پر بتایا کہ بارش کی وجہ سے لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور ہم ان کو ریسکیو کرنے اور ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا میونسپل کمیٹی کا عملہ اور کونسلر 27 فروری کی رات سے ابھی تک لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔

شریف میانداد نے دعوی کیا کہ گوادر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میونسپلٹی کا عملہ، کونسلرز اور انتطامیہ کے لوگ کر رہے ہیں، باقی کوئی ادارہ ان کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر سے پانی کو نکالنے کے لیے ٹینکروں اور جنریٹرز کو کرائے پر حاصل کیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ ان کو استعمال میں لا کر لوگوں کی مشکلات کو کم کریں۔

گوادر سے نو منتخب رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ گوادر اور اس کے نواحی علاقوں میں سیلابی پانی کی وجہ سے صورتحال سنگین ہے اور گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ شہر میں ترقی اور نکاسی آب کے نظام پر اربوں روپے لگائے گئے لیکن نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے بارش کا پانی باہر جانے کی بجائے گھروں میں داخل ہو گیا۔

مولانا ہدایت الرحمان نے مقامی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بارش سے پہلے جب اس کے بارے میں الرٹ جاری ہوا تو انھوں نے مقامی انتظامیہ سے ملاقات کر کے ہنگامی صورتحال کا پلان بنانے کا کہا لیکن اس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے آج لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ کوئٹہ میں متعلقہ اداروں سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو ریلیف کی فراہمی کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کیے جاسکیں مطالبہ کیا کے پانی کی نکاسی کے لیے ٹینکرز اور جنریٹرز فراہم کیے جائیں۔

گوادر میں غیر معمولی بارش کی وجہ کیا؟
اس بارے میں محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ زاہد رفیع نے بی بی سی کے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گوادر میں گذشتہ روز سے جاری رہنے والی بارش کا سسٹم مغرب میں پیدا ہوا اور خلیجی ممالک سے ہوتا ہوا پاکستان کے جنوب مغربی علاقوں پر برسا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس مرتبہ گوادر میں یہ بارش غیر معمولی تھی اور اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے بعد بننے والا رحجان ہے۔

اگر آپ دیکھیں تو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران خلیجی ممالک مثلا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی کافی بارش ہوئی ہے۔ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث وہاں سمندر سے اٹھنے والا بارش کا سسٹم ہے۔

ایک سوال پر کہ کیا گوادر اور پاکستان کے مغربی علاقوں میں اتنی بارش متوقع تھی اور اس کی پیش گوئی کی گئی تھی، کے جواب پر چیف میٹرولوجسٹ زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ جی بالکل یہ بارش اور اس کی شدت متوقع تھی، کیونکہ یہ سسٹم بنا ہی مغرب میں تھا، پیش گوئی کی گئی تھی کہ بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برف باری جبکہ نچلے علاقوں میں طوفانی بارش ہو سکتی ہے۔

اس بارے میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے سمیت متعلقہ اداروں کو اس بارے میں ایڈوائزی جاری کرنے سے متعلق زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ تمام متعلقہ اداراوں کو ممکنہ طوفانی بارشوں کے لیے تیار رہنے اور انتظامات کرنے سے متعلق نہ صرف ایڈوائزی جاری کی گئی تھی بلکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں ماہ میں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں بھی سنگین صورتحال سے متعلق تنبیہ پیغامات جاری کیے گئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی ایک سپیل گزرا ہے جبکہ دوسرا سپیل 29 فروری سے دو سے تین مارچ تک متوقع ہے۔ اس بارے میں بھی متعلقہ اداراوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

ملک کاروبار دوست نہیں رہا: پاکستان بزنس فورم

پاکستان بزنس فورم نے سال 2024 کو بزنس کمیونٹی اور عوام کے لیے مشکل ترین …