وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بائیس اسٹرکچرل بینج مارک ہیں،وفاقی حکومت نے اٹھارہ اور اسٹیٹ بینک نے چار پر عملدرآمد کرنا ہے، حکومت کسی قسم کی ٹیکس مراعات نہیں دے سکتی،
حکومت نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ جاری نہیں کر سکتی، گیس کے شعبے میں کیپسٹی پاور پلانٹس کو گیس سپلائی ختم کرنا ہے-
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ساری دنیا نے پاکستان کو اصلاحات پر عملدرآمد جاری رکھنے کا کہا ہے،گورننس بہتر بنانے کے ساتھ کرپشن کو روکنا بھی ضروری ہے،
اصلاحات پر عملدرآمد کرنا آسان نہیں ہوتا-کہا کہ عالمی بینک کے ساتھ دس سالہ پروگرام پر دستخط کریں گے، پروگرام سے غربت اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکا جائے گا
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین نوید قمر کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا-
وزیر خزانہ کی جانب سے کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ کرنے کی درخواست کی گئی، رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو بھی معاملات چل رہے ہیں ،سب جانتے ہیں سب کو جاننا چاہیے –
کمٹی کو ان کیمرہ نہیں کرنا چاہیے ،چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ حکومت جو کر رہی ہے، اس میں کچھ حساس معاملات ہو سکتے ہیں-
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ واشنگٹن میں سب سے ملاقاتیں ہوئیں، دو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے ہماری ریٹنگ بہتر کی ہے ،ساری دنیا نے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی ہے،ساری دنیا نے پاکستان کو اصلاحات پر عملدرآمد جاری رکھنے کا کہا ہے ،
گورننس بہتر بنانے کے ساتھ کرپشن کو روکنا بھی ضروری ہے، اصلاحات پر عملدرآمد کرنا آسان نہیں ہوتا،حکومت ٹیم ورک سے معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لیےاقدامات کر رہی ہے،
ہمیں ٹیکس اور توانائی کے شعبوں کو درست کرنا ہے ،ہمیں آبادی کے بم کو بھی درست کرنا ہے،اگر بچوں کی 40 فیصد سٹنٹنگ برتھ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو حالات بہتر نہیں ہوں گے، بچیوں کی بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے-
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ، سرپلس رہا ہے، اب زرمبادلہ کے ذخائر ڈھائی ماہ کی درآمد کے لیے کافی ہیں، مارچ اپریل میں زرمبادلہ ذخائر 3 ماہ درآمد کے لیے ہو جائیں گے-
وزیر خزانہ نے کہا کہ نومبر میں مہنگائی کم ہو کر 5 فیصد سے کم ہو گئی ہے، رواں سال شرح سود میں 7 فیصد کی کمی ہو چکی ہے،صنعتی شعبے میں بحالی کا عمل جاری ہے، نجی شعبہ دوبارہ سرمایہ کاری کے لیےقرض لے ریا ہے، غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ،دالوں اور چکن کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے-
سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے 22 اسٹرکچرل بینج مارک ہیں وفاقی حکومت نے 18 اور اسٹیٹ بینک نے 4 پر عملدرآمد کرنا ہے، حکومت کسی قسم کی ٹیکس مراعات نہیں دے سکتی،حکومت نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ جاری نہیں کر سکتی،
گیس کے شعبے میں کیپٹی پاور پلانٹس کو گیس سپلائی ختم کرنا ہے،یہ سارے بینچ مارکس پچھلے پروگراموں میں بھی شامل رہے،حکومت اب اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکتی،
صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدہ کر لیا گیا ہے،صوبے اپنی ٹیکس آمدن بڑھائیں گے اور اخراجات کم کریں گے، وفاقی سرکاری افسران کی طرح صوبائی افسران کو بھی اپنے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی-
بعد ازاں کمیٹی اجلاس کے دوران وزیر خزانہ کی بریفنگ ان کیمرہ کرنے پر اپوزیشن لیڈرعمرایوب نے اعتراض کیا،عمر ایوب نے کہا کہ بریفنگ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے ،جسے ان کیمرہ کیا جائے،ان کے خیال میں بریفنگ کے دوران کمیٹی اجلاس میں میڈیا کو ہونا چاہئیے ،آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق تمام حقائق عوام کے سامنےآنا چاہئیں