ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے اصلاحات کے لیے فنڈز ملنے کے باوجود، مالی سال 2024 کے دوران 43 ارب روپے سے زائد کے اضافی قرضے کے ساتھ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز) کا مجموعی قرضہ 17 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت کی اولین اقتصادی ترجیح پی ایس ایز کی نجکاری اور بجٹ پر بھاری بوجھ کو کم کرنا ہے، یہ پاکستان کے لیے اگلے آئی ایم ایف کے قرضوں کے لیے بھی ایک شرط ہے۔
معاشی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے پی ایس ایز کے لیے 2024-25 میں 12 کھرب 67 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 104 فیصد اضافی ہے، اس میں بڑی رقم سبسڈی اور گرانٹس کے ذریعے دی جائے گی۔
2 جولائی کو جاری ہونے والی اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2023 میں پی ایس ایز کا قرضہ خاصا کم تھا، مالی سال 2024 (1 جولائی سے 21 جون) کے دوران پی ایس ایز کا قرضہ 43.5 ارب روپے تھا، جو پچھلے سال میں 260 ارب روپے تھا۔
مالی سال 2023 کے آخر میں پی ایس ایز کا قرضہ 16 کھرب 87 ارب روپے تھا، جو مالی سال 2024 میں روپے 43.5 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 17 کھرب 30 ارب روپے ہو گیا۔
اس شعبے میں اصلاحات کے لیے اے ڈی بی سے قرضے لینے کے باوجود پی ایس ایز کا قرضہ بڑھ رہا ہے۔
28 جون، 2016 کو، اقتصادی امور کے ڈویژن اور اے ڈی بی نے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ریفارم پروگرام (پی ایس ای آر پی) کے لیے 30 کروڑ ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط کیے، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پی ایس ایز میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔
حکومت کے پی ایس ایز اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کرنے کے لیے، اے ڈی بی نے پی ایس ای آر پی کے لیے جون 2016 میں ایک پروگرامی طریقہ کار کی منظوری دی۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’اس کا آغاز جون 2017 میں ذیلی پروگرام کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی قسط سے ہوا اور بعد میں ایک دوسرے پروگرام کے لیے 30 کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا گیا، جس کا مقصد پہلے پروگرام کے تحت شروع کی گئی اصلاحات کو توسیع دینا تھا۔
تاہم، خسارے میں چلنے والے پی ایس ایز کی نجکاری بڑی سرکاری کمپنیوں کے لیے ایک سیاسی سوال بنی ہوئی ہے جو بڑی تعداد میں ملازمتیں فراہم کرتی ہیں، تاہم، یکے بعد دیگرے حکومتیں ان پی ایس ایز جیسے کہ ریلوے، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، وغیرہ کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات لانے میں ناکام رہیں۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اے ڈی بی کو پی ایس ای کی کارکردگی اور خاص طور پر پاکستان ریلوے کو بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی ، پروگرام کا مقصد کارپوریٹ گورننس اور پی ایس ایز کی جوابدہی کو بہتر بنانا اور عوامی وسائل کے انتظام کو بہتر بنا کر ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالیاتی جگہ کی فراہمی کو آسان بنانا تھا۔