
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحدیں غیر معینہ مدت کیلئے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ محض انتظامی بندش نہیں بلکہ پالیسی میں اسٹریٹجک تبدیلی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ ہونے تک سرحدیں کھلنے کا امکان نہیں ہے۔
حکام بتاتے ہیں کہ افغان تاجروں کو پیغام مل چکا ہے کہ وہ پاکستان پر انحصار کم کرکے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کریں۔ اس فیصلے سے اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردانہ فعالیت کی روک تھام اس کی اولین ترجیح ہے۔ ایک سرکاری عہدے دار نے کہا، “سکیورٹی پہلے، تجارت بعد میں” — یہی نئی حکمتِ عملی ہے۔
ایک سفارتی اور سیکورٹی بنیاد پر بند کیے گئے سرحدی گزرگاہوں پر ہزاروں ٹرک اور کنٹینرز پھنس چکے ہیں۔ ماضی کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان کی جانب سے دوحہ مذاکرات میں ہونے والی جنگ بندی “سرحدی دراندازی نہ ہونے” کو شرط کے طور پر رکھی گئی تھی۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے دوحہ اور استنبول مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ “سکیورٹی کے جائزے تک معطل رہے گی”۔ ان کے مطابق، “پاکستانیوں کی جانیں کسی بھی تجارتی سامان سے زیادہ قیمتی ہیں۔”
پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی دوبارہ تاکید کی ہے کہ کابل کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کے باوجود دہشت گردی کی کسی بھی بازیگری برداشت نہیں کی جائے گی۔
سرکاری عہدے داروں نے مزید کہا ہے کہ افغان طالبان کو باور کرا دیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے بغیر پاکستان مذاکرات جاری نہیں رکھے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان پر واضح کیا جائے: “امن اور تجارت تبھی ممکن ہے جب دہشت گردانہ نیٹ ورکس کو مکمل طور پر کچلا جائے۔”
اس بحران سے سرحدی علاقوں کے تاجروں اور عام شہریوں کو شدید معاشی اور انسانی نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ سرحدیں نہ صرف تجارتی بلکہ نقل و حمل کی روایتی راہیں بھی بند ہیں۔
یہ فیصلہ پاکستان کی اس نئی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنا داخلی اور سرحدی تحفظ تجارت اور معیشت پر فوقیت دے رہا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں دوطرفہ تعلقات شدت اختیار کر چکے ہیں۔
UrduLead UrduLead