منگل , اکتوبر 14 2025

قابلِ تجدید توانائی منصوبے تعطل کا شکار، آئی جی سی ای پی 2025-35 تاخیر کا شکار

پی پی آئی بی کے اجلاس میں ہائیڈرو اور سولر منصوبوں پر غیر یقینی صورتِ حال، متعدد منصوبوں کی توسیع روک دی گئی۔

پاکستان کے قابلِ تجدید توانائی کے متعدد بڑے منصوبے ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئے ہیں، کیونکہ پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) نے اپنے حالیہ اجلاس میں ایسے کئی ہائیڈرو اور سولر منصوبوں کی توسیع اور مالیاتی منظوریوں کو مؤخر کر دیا ہے جو پہلے ہی تاخیر کا شکار تھے۔ ذرائع کے مطابق اس تعطل کی بنیادی وجہ “انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) 2025-35” کی تاحال عدم منظوری ہے، جو مستقبل کی بجلی کی پیداوار اور توانائی کے توازن کا تعین کرے گا۔

پی پی آئی بی کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہ جہان مرزا نے اجلاس میں پیش کردہ رپورٹ میں واضح کیا کہ نیپرا کی جانب سے آئی جی سی ای پی کی منظوری تاخیر کا شکار ہونے کے باعث متعدد ہائیڈرو اور سولر پاور پراجیکٹس کا مستقبل غیر یقینی ہو چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے تمام منصوبے جن کی مالیاتی تکمیل (Financial Close) یا توسیع زیرِ غور تھی، ان کی موجودہ حیثیت برقرار رکھی جائے گی جب تک کہ نیپرا حتمی منظوری جاری نہیں کرتا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 700.7 میگاواٹ آزاد پٹن ہائیڈرو پاور منصوبہ — جو آزاد کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے — کو فی الحال سی پیک توانائی منصوبوں کی فہرست میں ممکنہ تبدیلی سے متعلق جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) اور وفاقی حکومت کے فیصلے تک اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کمپنی کی جانب سے مالیاتی تکمیل کی تاریخ میں توسیع کی درخواست معطل کر دی گئی ہے، تاہم پرفارمنس گارنٹی فعال رہے گی تاکہ منصوبہ مستقبل میں دوبارہ فعال کیا جا سکے۔

اسی طرح، 1124 میگاواٹ کوہالہ ہائیڈرو پاور منصوبے کی فنانشل کلوزنگ میں ستمبر 2027 تک دی گئی توسیع واپس لے لی گئی ہے، مگر منصوبہ فی الحال فعال فہرست میں برقرار رہے گا۔ دونوں منصوبوں کے چیف ایگزیکٹو افسران نے وزیرِاعظم اور توانائی حکام کو فیصلے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، مؤقف اپناتے ہوئے کہ اس تاخیر سے سی پیک کے تحت ہائیڈرو سرمایہ کاری کے تسلسل پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

پی پی آئی بی نے 8 میگاواٹ کتھائی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا لیٹر آف سپورٹ (LOS) فوری طور پر منسوخ کر دیا ہے، بشرطیکہ کمپنی ڈیڈ آف ریلیز پر دستخط کرے اور واجب الادا فیس ادا کرے۔ بورڈ کے مطابق، اس منصوبے کی منسوخی کا عمل جاری ہے اور جلد اس کی پرفارمنس گارنٹی واپس کی جائے گی۔

اسی اجلاس میں ایکسس سولر (11.52 میگاواٹ) اور ایکسس الیکٹرک (10 میگاواٹ) کے سولر منصوبوں کی LOS مدت ختم ہونے کی منظوری بھی دی گئی۔ جبکہ سیف سولر کے 10 میگاواٹ منصوبے کے لیے کمپنی کی پرفارمنس گارنٹی مکمل طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے سولر منصوبوں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

مزید برآں، ٹرانس اٹلانٹک انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ (TAEPL) کے لیے جاری کردہ لیٹر آف انٹینٹ (LOI) کی توسیع کو بھی مؤخر کر دیا گیا ہے۔ بورڈ نے واضح کیا ہے کہ LOI میں کسی نئی توسیع کا فیصلہ نیپرا کے آئی جی سی ای پی 2025-35 کی منظوری کے بعد ہی کیا جائے گا۔ اس دوران کمپنی کو اپنی بینک گارنٹی فعال رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، جو اکتوبر 2026 تک توسیع کر دی گئی ہے۔

اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ 640 میگاواٹ ماہل، 450 میگاواٹ آٹھمقام، اور 82.25 میگاواٹ ٹرٹوناس-اوزغور ہائیڈرو منصوبوں کے لیے کوئی نئی توسیع یا اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ان منصوبوں کے مستقبل کا فیصلہ آئی جی سی ای پی کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت حکومت توانائی منصوبوں میں “منصوبہ جاتی شفافیت” برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ صرف وہی منصوبے آگے بڑھ سکیں جن کی ضرورت قومی بجلی کی طلب کے مطابق ہو۔

اس کے علاوہ، بورڈ نے ریالی ہائیڈرو پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ساتھ حکومتِ پاکستان کے ایمپلیمینٹیشن ایگریمنٹ (Implementation Agreement) پر دستخط کی منظوری بھی دی، تاہم اس معاہدے پر عملی پیش رفت بھی نیپرا کی منظوری سے مشروط قرار دی گئی ہے۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق، آئی جی سی ای پی 2025-35 کی تاخیر پاکستان کے پاور سیکٹر میں “پالیسی فریز” کا سبب بن رہی ہے۔ اس پلان کی منظوری کے بغیر نیپرا کسی نئے منصوبے کی فنانشل کلوزنگ، سرمایہ کاری کی منظوری یا گرڈ انٹیگریشن کے فیصلے نہیں کر سکتی۔ نتیجتاً متعدد ہائیڈرو، سولر اور ونڈ منصوبے کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپرا نے پلان کے ڈرافٹ پر ابتدائی سماعت مکمل کر لی ہے، تاہم چند تکنیکی اعتراضات اور ترجیحی فہرست کے تنازعات کے باعث منظوری مؤخر ہے۔ اس دوران پی پی آئی بی نے تمام کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی پرفارمنس گارنٹیاں برقرار رکھیں اور مالیاتی اداروں سے طے شدہ وعدوں کو مؤخر نہ کریں تاکہ منظوری ملنے کے بعد عمل درآمد فوری شروع ہو سکے۔

پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں، مگر پالیسی تاخیر، ریگولیٹری پیچیدگیوں اور فنانشل کلوز میں رکاوٹوں کے باعث ان میں سے کئی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ اگر آئی جی سی ای پی 2025-35 کی منظوری مزید تاخیر کا شکار ہوئی، تو ملک کی مستقبل کی توانائی حکمتِ عملی — خاص طور پر ہائیڈرو اور سولر انرجی کے شعبوں — پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

پی پی آئی بی نے اس ضمن میں تمام نجی سرمایہ کار کمپنیوں کو باضابطہ طور پر فیصلوں سے آگاہ کر دیا ہے تاکہ وہ اپنی آئندہ حکمتِ عملی اسی روشنی میں ترتیب دے سکیں۔ توانائی ماہرین کے مطابق، اس وقت پاکستان کے پاور سیکٹر کو سب سے زیادہ ضرورت پالیسی تسلسل، بروقت منظوریوں اور ریگولیٹری ہم آہنگی کی ہے، بصورتِ دیگر قابلِ تجدید توانائی کی رفتار ملک کے توانائی اہداف سے بہت پیچھے رہ جائے گی۔

About Aftab Ahmed

Check Also

ڈینگی کیسز میں خطرناک اضافہ، موسمی تبدیلی سے وبا شدت اختیار کرگئی

ملک بھر میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ڈینگی وائرس کے کیسز میں خطرناک حد …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے