تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روحانی گفتگو مریضوں کو ریڈی ایشن تھراپی کے دوران جذباتی سکون دیتی ہے

روحانیت اور مذہبی عقائد کینسر کے مریضوں کے لیے صرف روحانی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مؤثر نفسیاتی سہارا بھی ثابت ہو رہے ہیں، خصوصاً ان افراد کے لیے جو ریڈی ایشن تھراپی جیسے جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دینے والے علاج سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ انکشاف امریکا کے ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم سے وابستہ محققین کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے، جو اس امر پر روشنی ڈالتی ہے کہ مذہبی گفتگو مریضوں کے ڈپریشن اور تناؤ کو کم کرنے میں کتنی اہم ہو سکتی ہے۔
تحقیق میں شامل مریضوں نے واضح کیا کہ وہ علاج کے دوران ڈاکٹروں کے ساتھ روحانیت سے متعلق گفتگو کو نہایت مفید سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس عمل سے نہ صرف ان کے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوئی بلکہ ان میں بیماری کا سامنا کرنے کی قوت ارادی بھی بڑھی۔ ریڈی ایشن تھراپی سے گزرنے والے 82 فیصد مریضوں نے بتایا کہ ان کے لیے ان کا ایمان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اسے اپنی بحالی میں ایک مرکزی عنصر تصور کرتے ہیں۔
یہ نتائج اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ تحقیق کینسر کے مریضوں کے علاج میں روحانیت کے کردار پر مرکزیت دیتی ہے۔ عام طور پر جسمانی علاج کو ترجیح دی جاتی ہے، مگر اس تحقیق میں جذباتی اور روحانی بہبود کو بھی مساوی اہمیت دی گئی ہے۔ محققین کے مطابق ایسے مریض جو اپنے ایمان یا روحانی عقائد کو تسلیم شدہ محسوس کرتے ہیں، وہ علاج کے دوران زیادہ پُرامید، پُرسکون اور تعاون پذیر ہوتے ہیں۔
تحقیق نے یہ بھی اجاگر کیا کہ کینسر جیسے جان لیوا مرض سے گزرنے والے افراد طویل عرصے تک ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں، بعض اوقات تو علاج مکمل ہونے کے کئی مہینے بعد بھی یہ علامات برقرار رہتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 40 فیصد سے زائد کینسر مریض علاج کے بعد بھی شدید تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس تناظر میں مذہبی گفتگو یا روحانی معاونت نہ صرف عارضی سکون دیتی ہے بلکہ طویل مدتی نفسیاتی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں دل کی بیماری جیسے دیگر پیچیدہ مسائل پیدا ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے افراد میں دل کی بیماری کا خطرہ 40 سے 60 فیصد زیادہ ہوتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی صحت جسمانی صحت سے کس قدر جڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اب روحانی صحت کو بھی جسمانی اور ذہنی صحت کے برابر اہم سمجھنے پر زور دے رہے ہیں۔
تحقیق کے مرکزی محققین نے واضح کیا کہ یہ ابتدائی نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں، مگر وہ اس موضوع پر مزید گہرائی سے تحقیق کے خواہاں ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کون سے مخصوص روحانی عناصر سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور کن طبقات میں ان کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
طبی ماہرین اور محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کینسر کے علاج میں روحانیت کو ایک باقاعدہ، معیاری عنصر کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ تجویز نہ صرف مریضوں کی جذباتی بھلائی کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے بلکہ ممکنہ طور پر علاج کے نتائج کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔
ماؤنٹ سینائی کی یہ تحقیق اس وسیع تر عالمی بحث میں اہم اضافہ ہے جس میں صحت کو ایک ہمہ جہتی تصور کے طور پر دیکھا جا رہا ہے—جس میں جسم، ذہن اور روح تینوں شامل ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا کہ ایک مریض نہ صرف جسمانی علاج بلکہ جذباتی اور روحانی مدد کا بھی مستحق ہے، جدید طبی اصولوں کی سمت ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔
نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کےلیے ڈاکٹر سے رجوع کریں