سماعت کے دوران مختلف فریقین نے کے-الیکٹرک کو دی گئی مالی سہولیات اور ٹیرف پالیسیوں پر شدید اعتراضات اٹھائے

کے-الیکٹرک کو دیگر بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے مقابلے میں دی جانے والی مالی اور انتظامی رعایتوں پر ایک بار پھر سوالات اٹھنے لگے ہیں، جنہیں ناقدین نے نہ صرف “غیر منصفانہ” بلکہ “صارفین پر براہ راست بوجھ ڈالنے والی” پالیسیاں قرار دیا ہے۔ حالیہ سماعت میں ماہرین اور مختلف اسٹیک ہولڈرز نے نیپرا کو تفصیل سے آگاہ کیا کہ کس طرح کے-الیکٹرک کو دی گئی سہولیات باقی ڈسکوز کے لیے دستیاب نہیں، جس سے مالی توازن بگڑ رہا ہے۔
اعتراضات میں سب سے اہم نکتہ کے-الیکٹرک کو ڈالر میں ریٹرن آن ایکویٹی (آر او ای) دیے جانے کا ہے، جو روپے میں تبدیل ہونے پر 24.46 فیصد کی بلند سطح پر پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس دیگر تمام ڈسکوز کو صرف 15 فیصد ریٹرن فراہم کیا جاتا ہے، جسے ماہرین نے واضح جانبداری اور غیر مساوی سلوک کا مظہر قرار دیا۔
مزید برآں، کے-الیکٹرک کو ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) لاسز، لا اینڈ آرڈر کے اخراجات، اور ورکنگ کیپیٹل پر زیادہ مارک اپ جیسے عوامل پر بھی رعایتیں حاصل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان مالی سہولتوں کا براہ راست اثر صارفین پر اضافی ٹیرف کی صورت میں پڑتا ہے، جو پہلے ہی مہنگائی اور توانائی بحران سے پریشان ہیں۔
سماعت میں متعدد افراد نے اس نکتے پر بھی زور دیا کہ کے-الیکٹرک کے لیے سات سالہ “کنٹرول پیریڈ” کی سہولت دینا، جبکہ دیگر ڈسکوز کو اس سے محروم رکھنا، ایک کھلی جانبداری ہے۔ کنٹرول پیریڈ وہ دورانیہ ہوتا ہے جس میں کمپنی کو اپنے نرخ مستحکم رکھنے اور منافع کا یقین دلایا جاتا ہے۔ معترضین نے مؤقف اپنایا کہ اس تفریق نے کے-الیکٹرک کو مارکیٹ میں غیر معمولی فائدہ دیا ہے۔
سرمایہ جاتی اخراجات پر بھی اعتراضات سامنے آئے، جنہیں غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا گیا۔ ناقدین نے کہا کہ سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی اصل کھپت اور موجودہ اثاثہ جات کے استعمال کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ صرف مالی تخمینوں پر۔ بصورت دیگر، یہ لاگت صارفین سے وصول کی جاتی ہے، جس سے ان کا بجلی کا بل مزید بڑھ جاتا ہے۔
عوامی مفاد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ بجلی کے ٹیرف میں نظرثانی سالانہ بنیادوں پر کی جائے اور اس میں حقیقی رجحانات، مہنگائی، اور جدید ٹیکنالوجی کی شمولیت کو مدِنظر رکھا جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف صارفین کو ریلیف ملے گا بلکہ توانائی کے شعبے میں شفافیت اور مسابقت بھی بڑھے گی۔
یہ اعتراضات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان کا توانائی شعبہ پہلے ہی گردشی قرضوں، انتظامی ناکامیوں، اور صارفین کے عدم اعتماد کا شکار ہے۔ اس تناظر میں کے-الیکٹرک کو دی گئی مراعات پر نظرثانی ناگزیر قرار دی جا رہی ہے تاکہ ملک میں توانائی کی تقسیم کا نظام زیادہ شفاف، منصفانہ اور پائیدار ہو سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نیپرا نے ان اعتراضات کا سنجیدہ نوٹس نہ لیا تو یہ امتیازی پالیسیاں نہ صرف دیگر ڈسکوز کی کارکردگی کو متاثر کریں گی بلکہ صارفین کے بجلی بلوں میں مسلسل اضافہ ایک سنگین سماجی مسئلہ بن سکتا ہے۔ توانائی پالیسی میں ہم آہنگی اور برابری کو یقینی بنانا ہی طویل مدتی استحکام کی بنیاد بن سکتا ہے۔