منگل , اکتوبر 14 2025

پاکستانی سیاسی شخصیات کے شوگر ملز میں شیئرز بے نقاب

ایس ای سی پی کی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ حمزہ شہباز، مونس الٰہی، چوہدری شجاعت سمیت کئی معروف سیاستدان ملک کی مختلف شوگر ملز میں شیئرز کے مالک ہیں۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے تیار کی گئی دستاویزات نے ملک میں شوگر انڈسٹری اور سیاسی اشرافیہ کے گہرے تعلقات پر نئی روشنی ڈالی ہے۔ ان ریکارڈز کے مطابق مختلف سیاسی و معروف کاروباری شخصیات کئی شوگر ملز میں اہم حصص کی مالک ہیں، جس نے شفافیت اور احتساب سے متعلق سوالات کو مزید شدت دے دی ہے۔

دستاویزات کے مطابق یہ ڈیٹا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کی سفارش پر مرتب کیا گیا۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ شریف فیملی کی ملکیت میں العربیہ اور رمضان شوگر ملز شامل ہیں جہاں حمزہ شہباز شریف، سلمان حمزہ شریف اور نصرت شہباز بطور شیئر ہولڈر درج ہیں۔

اسی طرح پنجاب شوگر ملز میں چوہدری شجاعت حسین اور سالک حسین کے شیئرز موجود ہیں، جبکہ آر وائی کے ملز میں سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی اور مخدوم عمر شہریار سمیت دیگر سرمایہ کار شامل ہیں۔

ریکارڈ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹنڈو الہ یار شوگر ملز کے سو فیصد شیئرز خواجہ عبدالغنی مجید کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب اشرف شوگر ملز میں سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف سمیت کئی شیئر ہولڈرز موجود ہیں، جبکہ رحیم یار خان شوگر انڈسٹری میں سابق میئر لاہور میاں عامر محمود کا نام شامل ہے۔

مدینہ شوگر ملز میں محمد رشید اور محمد مجتبیٰ سمیت کئی افراد حصے دار ہیں، فاطمہ شوگر ملز کے مالک عباس مختار، فیصل مختار اور فواد مختار ہیں، جبکہ اتحاد شوگر ملز میں مخدوم ہاشم جواں بخت اور مخدوم عمر شہریار کے شیئرز موجود ہیں۔

بلوچ شوگر ملز کے حصص دوست علی مزاری اور طارق علی مزاری کے پاس ہیں۔ چوہدری شوگر ملز میں عبدالعزیز عباس شریف، عبداللہ یوسف شریف اور شریف ٹرسٹ سمیت خاندان کے دیگر افراد شامل ہیں۔ اسی طرح چیمہ شوگر ملز میں چوہدری انور علی، سردار محمد عارف نکئی اور محمد شفیع کے نام درج ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر انڈسٹری پاکستان کی معیشت میں ایک طاقتور کردار ادا کرتی ہے اور سیاسی خاندانوں کی اس میں شراکت داری ملک میں گورننس اور پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ماضی میں بھی چینی کے بحران اور قیمتوں میں مصنوعی اضافہ پر انہی سیاسی شخصیات پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

پاکستان میں چینی کے بحران کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، جہاں قیمتوں میں اچانک اضافے نے عام صارف کو شدید متاثر کیا۔ ہر بار تحقیقات کے بعد یہی سامنے آیا کہ بڑی شوگر ملز کے مالکان کا تعلق یا تو براہِ راست سیاست سے ہے یا وہ بڑے سیاسی خاندانوں کے قریب ہیں۔

اس نئے انکشاف نے ایک بار پھر عوامی بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے سرمایہ کاروں کو اجارہ داری کے ذریعے مارکیٹ کنٹرول کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے؟ ماہرین شفاف ریگولیشن، سخت احتساب اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنے کے اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔

ایس ای سی پی کی یہ دستاویزات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شوگر ملز محض صنعتی ادارے نہیں بلکہ ملکی سیاست، معیشت اور اقتدار کی بساط پر ایک اہم ہتھیار ہیں۔ عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ حکومت ان تعلقات کی شفاف تحقیقات کرے اور ایسی پالیسی تشکیل دے جس سے اجارہ داریوں کا خاتمہ اور صارفین کو ریلیف فراہم ہو سکے۔

پاکستانی سیاست اور شوگر انڈسٹری کے باہمی تعلقات پر بحث اب شدت اختیار کر رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ معاملہ پارلیمانی سطح پر مزید اٹھایا جائے گا، تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ پالیسی سازی میں ذاتی مفادات کو کس حد تک اثر انداز ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

سمندری کیبل کی مرمت سے انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے کا امکان

پی ٹی سی ایل کے مطابق بین الاقوامی کیبل کی مرمت کا کام آج صبح …