
حکومت نے نئی انرجی وہیکل پالیسی 2025-30 کے تحت 2030 تک ملک میں 30 فیصد گاڑیوں کی فروخت کو الیکٹرک بنانے کا ہدف مقرر کر دیا ہے۔
پالیسی کے مطابق وفاقی اور صوبائی سطح پر ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ملک بھر میں تین سے چار چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جن کی فنڈنگ کے لیے بجٹ میں رقم مختص اور باقی وسائل خصوصی لیوی سے حاصل کیے جائیں گے۔ حکام کے مطابق فنڈنگ گیپ پورا کرنے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں 9 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر 122 ارب روپے کی سبسڈی اسکیم متعارف کرائی جائے گی تاکہ الیکٹرک وہیکلز (ای وی) کی خریداری کو عام کیا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے روایتی پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر 1 سے 3 فیصد نیو انرجی وہیکلز ایڈاپشن لیوی عائد کی گئی ہے، جو فنانس بل 2025 کے تحت نافذ ہو گی۔ آئندہ پانچ سالوں میں ایک لاکھ 16 ہزار الیکٹرک بائیکس، 3 ہزار 170 الیکٹرک رکشے اور الیکٹرک لوڈرز فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ عوامی اور کمرشل سطح پر ای وی کی دستیابی بڑھائی جا سکے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی درآمدی تیل کے بل میں نمایاں کمی لانے کے ساتھ فضائی آلودگی کو کم کرے گی اور شہری ماحولیاتی معیار کو بہتر بنائے گی۔ اس کے علاوہ بجلی کی اضافی پیداوار، جو اکثر ضائع ہو جاتی ہے، ای وی کے ذریعے مؤثر طور پر استعمال کی جا سکے گی۔ حکام نے واضح کیا کہ پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیفٹی، کوالٹی اور ماحولیاتی معیارات پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا تاکہ صارفین کو محفوظ اور پائیدار ٹرانسپورٹ سہولت ملے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کا یہ فیصلہ عالمی رجحان کے مطابق ہے جہاں چین، یورپی یونین اور امریکا نے بھی ای وی کے لیے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔ چین 2035 تک زیادہ تر کاروں کو الیکٹرک یا ہائبرڈ بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے، جبکہ یورپ میں ڈیزل اور پیٹرول گاڑیوں پر مرحلہ وار پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں اس سے قبل 2019 میں الیکٹرک وہیکل پالیسی متعارف کرائی گئی تھی، تاہم اس پر عمل درآمد سست روی کا شکار رہا۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی پیرس معاہدے کے تحت کیے گئے ماحولیاتی وعدوں کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہو گی اور صوبوں کے تعاون سے ایک جامع فریم ورک کے تحت نافذ کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ای وی کی تیز رفتار اپنانے سے مقامی انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا اور نئی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔
پالیسی ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کو صرف اہداف مقرر کرنے کے بجائے چارجنگ انفراسٹرکچر کی فراہمی، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی پیداوار بڑھانے پر بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ یہ پروگرام کاغذی حد تک محدود رہ سکتا ہے۔ تاہم، حکومتی عہدیدار پُرامید ہیں کہ اس پالیسی سے نہ صرف معیشت کو فائدہ ہو گا بلکہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی نبھا سکے گا۔
UrduLead UrduLead