
آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی نے منظور شدہ ٹیرف کی خلاف ورزی کی جبکہ پی ٹی اے کی کمزور نگرانی کے باعث صارفین کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جازپاکستان نے مالی سال 2023-24 میں اپنے صارفین سے منظور شدہ ٹیرف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6.58 ارب روپے زائد وصول کیے، جس کا انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی تازہ ترین رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف کمپنی کے طریقۂ کار پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں صارفین کے تحفظ اور ریگولیٹری نگرانی کے معیار پر بھی سنگین خدشات پیدا کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جاز نے صارفین سے وہ قیمتیں وصول کیں جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی منظور شدہ شرحوں سے زیادہ تھیں۔ یہ عمل 1996 کے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ اور 2009 کے ٹیلی کام کنزیومر پروٹیکشن ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہے، جن کے تحت کمپنیوں پر صرف منظور شدہ ٹیرف وصول کرنے کی پابندی عائد ہے۔
آڈٹ میں مختلف ماہانہ اور ہفتہ وار پیکجز کا جائزہ لیا گیا، جس سے ظاہر ہوا کہ جاز نے مسلسل زیادہ قیمت وصول کی۔ مثال کے طور پر “منتھلی سپر ڈوپر” پیکج کی منظور شدہ قیمت 955 روپے تھی لیکن صارفین سے 1,043 روپے وصول کیے گئے۔
اسی طرح “منتھلی فریڈم” پیکج کی منظور شدہ قیمت 1,652 روپے کے بجائے 1,739 روپے وصول کیے گئے۔ سب سے زیادہ فرق “منتھلی یوٹیوب اینڈ سوشل آفر” میں سامنے آیا، جس کی منظور شدہ قیمت 348 روپے تھی لیکن صارفین سے 434 روپے لیے گئے، جس سے صرف اس پیکج پر 2.12 ارب روپے زائد وصولی ہوئی۔
مجموعی طور پر، آڈٹ کے مطابق جاز نے ایک سال میں مختلف پیکجز کے ذریعے صارفین سے 6.583 ارب روپے زائد رقم وصول کی۔ رپورٹ کے مطابق یہ کوئی انفرادی غلطی نہیں بلکہ ایک منظم طریقۂ کار تھا جس میں کمپنی نے بار بار زیادہ قیمتیں لاگو کیں۔
رپورٹ میں پی ٹی اے پر بھی کڑی تنقید کی گئی۔ آڈٹ نے کہا کہ اتھارٹی نے “کمزور نگرانی” کا مظاہرہ کیا اور آپریٹرز کو ہر سہ ماہی میں 15 فیصد تک قیمتیں بڑھانے اور 5 فیصد تک سہولیات کم کرنے کی اجازت دے دی، جسے صارفین کے تحفظ کے قوانین کے منافی قرار دیا گیا۔
پی ٹی اے نے وضاحت دی کہ پاکستان کا ٹیلی کام سیکٹر ایک ڈی ریگولیٹڈ فریم ورک کے تحت چل رہا ہے، جہاں اتھارٹی کا بنیادی کردار صرف مقابلے کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم آڈٹ حکام نے اس مؤقف کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ صارفین کے تحفظ کے قوانین کے تحت آپریٹرز پر لازم ہے کہ وہ صرف منظور شدہ ٹیرف ہی وصول کریں۔
یہ معاملہ 26 دسمبر 2024 کو ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) میں بھی زیر بحث آیا، جہاں پی ٹی اے کو ہدایت کی گئی کہ وہ جاز کے ٹیرف ریویژن کا مکمل ریکارڈ فراہم کرے۔ لیکن رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے مطلوبہ دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہا۔
آڈٹ حکام نے اب مکمل انکوائری، ڈی اے سی کی ہدایات پر عمل درآمد اور ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے جنہوں نے کمپنی کو غیر مجاز چارجز وصول کرنے کی اجازت دی۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کا ٹیلی کام سیکٹر 190 ملین سے زائد صارفین کے ساتھ معیشت کا سب سے بڑا ریونیو پیدا کرنے والا شعبہ ہے۔
جاز اکیلا ہی تقریباً 40 فیصد مارکیٹ شیئر رکھتا ہے اور 73 ملین سے زائد صارفین کو سروس فراہم کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹیلی نور کے مارکیٹ سے نکل جانے کے بعد مسابقت مزید کم ہوگئی ہے، جس سے جاز جیسی بڑی کمپنیوں کا غلبہ مزید بڑھ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور ریگولیٹری نگرانی اور محدود مسابقت کے باعث بڑی کمپنیاں اپنی من مانی قیمتیں لاگو کرسکتی ہیں، جس سے صارفین کو براہ راست نقصان ہوتا ہے۔ آڈٹ کی یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جب تک ریگولیٹری نظام سخت نہیں ہوگا، صارفین من مانی بلنگ اور اضافی چارجز سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
یہ واقعہ نہ صرف جاز کے کاروباری طریقۂ کار بلکہ پی ٹی اے کی کارکردگی پر بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ آڈٹ رپورٹ اب اس بات کا امتحان ہے کہ پاکستان کے ادارے کس حد تک بڑی کمپنیوں کو جواب دہ بنانے میں سنجیدہ ہیں۔