
وزارت توانائی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے درمیان چینی توانائی منصوبوں کو واجب الادا 431 ارب روپے کی ترسیلات کے معاملے پر اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ یہ رقم کمرشل بینکوں کے ذریعے فراہم کی جانی ہے، تاہم پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ یہ ادائیگیاں تاحال رکی ہوئی ہیں۔
یہ معاملہ حالیہ سب کمیٹی برائے اصلاحات کے اجلاس میں سامنے آیا، جس کی صدارت وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل علی پرویز ملک نے کی۔ اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر بھی شریک تھے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ پورٹ قاسم اور ساہیوال جیسے چینی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر وزارت خزانہ کو بارہا ادائیگیوں کے لیے خطوط لکھ چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا مؤقف تھا کہ اس کے پاس یا کسی بھی کمرشل بینک میں قرض یا منافع کی کوئی ادائیگی زیر التوا نہیں ہے، سوائے ایک تجارتی بینک کے جہاں 26.5 ملین ڈالر کی ادائیگی باقی ہے جسے جلد کلیئر کر دیا جائے گا۔
اس کے برعکس پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے کی ادائیگیوں کا عمومی دورانیہ 90 دن ہے، تاہم غیر توانائی مدات کی مد میں 431 ارب روپے کی رقوم کمرشل بینکوں میں پھنس چکی ہیں۔ پیش کی گئی تفصیلی رپورٹ کے مطابق توانائی کی ادائیگیوں میں تین ماہ سے زائد کی تاخیر نہیں ہے، مگر غیر توانائی ادائیگیاں کئی برسوں سے التوا کا شکار ہیں، اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث ان کی ڈالر ویلیو میں بھی کمی آ چکی ہے۔
اجلاس میں نیپرا کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا اور آٹھ زیر التوا مقدمات پر بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اسٹیٹ بینک نے ایک بار پھر واضح کیا کہ اس نے کسی بھی کمرشل بینک کو ادائیگیوں میں تاخیر کے زبانی یا تحریری احکامات جاری نہیں کیے۔
پاور ڈویژن نے اپنے مؤقف پر اصرار کیا کہ چینی کمپنیوں کے واجبات اب بھی کمرشل بینکوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے کہا کہ وہ زیر التوا ادائیگیوں کی تفصیلی رپورٹ فراہم کرے، جس میں رقم کی مد بھی شامل ہو۔
اجلاس میں سرمایہ کاری کے لیے بنیادی اصولوں کی اہمیت پر زور دیا گیا جن میں معاہدوں کا تحفظ، قانون کے مطابق کارروائی، سیکیورٹی، شفافیت، اور پالیسی میں تسلسل شامل ہیں۔
سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) نے بتایا کہ چھ خصوصی اقتصادی زونز کو چینی سرمایہ کاروں کے لیے پروموٹ کیا جائے گا۔ ان میں راشکئی، دھابیجی، قائداعظم بزنس پارک، بختیار آباد، کراچی انڈسٹریل پارک اور پاکستان اسٹیل مل شامل ہیں۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ ان زونز میں بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ سروس لیول ایگریمنٹس بھی متعارف کرائے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں کے لیے وقت کی پابندی یقینی بنائی جا سکے۔
اسی طرح، سرمایہ کاری بورڈ نے ون ونڈو آپریشن اور کاروباری سہولت مراکز کے قیام پر بریفنگ دی۔ بتایا گیا کہ کمپنیز ایکٹ میں ترامیم، ڈریپ کے لائسنس کے اوقات میں کمی اور مختلف اداروں کو ایس ای سی پی سے منسلک کیا گیا ہے۔
اجلاس میں بندرگاہوں پر کلیئرنس کے اوقات، کولڈ چین لاجسٹکس، اور گرین چینل کی سہولت جیسے امور بھی زیر بحث آئے۔ چیئرمین کے پی ٹی کی خالی آسامی پر بھی برہمی کا اظہار کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ فوری طور پر اس کا بندوبست کیا جائے۔