پی ٹی آئی فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں سے محروم

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں، عدالت نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت میں مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوگئی تھی جس کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
بعد ازاں، مختصر وقفے کے بعد عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا جس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 5 کے مقابلے میں7 کی اکثریت سے نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں۔
آئینی بینچ نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
اس سے قبل، 14 مارچ 2024 کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
آج کیس کی سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس صلاح الدین پنوار نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جس کے بعد مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے گزشتہ روز بینچ پر اعتراض اٹھایا تھا، حامد خان نے ان ججز کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا جو 26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ آئے، حامد خان کے اس اعتراض کے باعث بہتر سمجھتا ہوں خود کو بینچ سے الگ کر لوں۔
جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ جن ججز پر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض کیا گیا ان میں میں بھی شامل ہوں، عوام کا عدلیہ میں اعتماد لازم ہے،
ضروری ہے کسی فریق کا ببچ پر اعتراض نہ ہو۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میں جسٹس صلاح الدین پنہور کے اس اقدام کو سراہتا ہوں جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ کوئی سراہنے والا معاملہ نہیں ہے، یہ آپ ہی کے کنڈکٹ کا نتیجہ ہے، ہم نے آپ کو عزت دی، اس لیے آپ کو سن رہے ہیں، ورنہ ہم آپ کو سننے کے مجاز نہ تھے، آپ کو موقع دیا، آپ اس کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس دس منٹ ہیں بات کرنی ہے تو کریں، ایسا نہیں ہے کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی جس پر حامد خان نے کہا کہ آپ غصے میں لگ رہے ہیں، ابھی کیس مت سنیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں جانتا ہوں کیسے کام کرنا ہے،اپ اپنی الفاظوں کا خیال رکھیں، آپ نے بات نہیں کرنی تو بیٹھ جائیں، آپ جو کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں۔
حامد خان نے کہا کہ میری بات سن لیجیے جوڈیشل کمیشن بینچ بناتا ہے جس پر جمال مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے، حامد خان نے جواب دیا کہ 26ویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 191 اے کے تحت بنتے ہیں بنچز۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں، حامد خان نے جواب دیا کہ اسی لیے کہا تھا 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون کا حوالہ دیں گے تو آپ کو کل تک سنیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ترمیم سپریم کورٹ نے کی ہے، آپ سینیٹر ہیں کیا آپ نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا، حامد خان نے جواب دیا کہ میں نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ سب نے بائیکاٹ کیا تھا، جب تک وہ ہے یا اسے قبول کریں یا آپ کہیں یہ سسٹم مجھے منظور نہیں ہے وکالت چھوڑ دیں۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ نظر ثانی وہی کرسکتا ہے جس نے نظراول کی ہو، جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا آگے بڑھیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی بھی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے، کیا نوٹیفکیشن کے بعد الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ یا ہم سے کوئی درخواست کی کہ ہمیں سیٹ دیں؟ معذرت کیساتھ کس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا، اس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت بارے فیصلے کی تحقیقات کرنی چاہیے، اس نقصان کا ملبہ اب عدالت پر ڈالا جارہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 13 کے 13 ججز نے متفقہ کہا تھا کہ مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں بنتا، آپ اس بات کو خود بھی تسلیم کررہے ہیں، صاف بات ہے کہ قوم کو گمراہ کیا جارہا ہے، درست حقائق سامنے نہیں لائے جارہے۔
بعد ازاں، عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔