سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کردیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم صدر، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کے انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کورد کردیا تھا، اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی (ف) کی نظر میں پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھودی ہے، لگتا ہے فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، انتخابی دھاندلی میں 2018 کا بھی ریکارڈ توڑ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن کے شفاف الیکشن کے بیان کو مسترد کرتے ہیں،الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا، اسلام دشمن عالمی قوتوں کے دباؤ پر ہماری جیت کو شکست میں بدلا گیا ہے، ہم اپنے نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، اگر الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ ختم ہوگیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے نواز شریف کو اپوزیشن میں ساتھ بیٹھنے کی دعوت بھی دے دی تھی.
بعد ازاں نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ ’حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن انتخابی چوری ایسا عمل ہے جس کا گواہ یا شواہد پیش کرنا دشوار ہوتا ہے، پورا الیکشن چوری ہوا ہے، نہ کہنے والی کہانیاں ہیں کہ ان انتخابات میں کیا کچھ ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے انتخابات کو باقاعدہ طور پر مسترد کردیا ہے اور ہم اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے اور فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، 2018 کے اور حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں نے مؤقف بدلا لیکن ہم وہ واحد جماعت ہیں جو اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے اور جس کا بظاہر فائدہ (ن) لیگ کو ہوا ہے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تاثر موجود ہے کہ نواز شریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے، یہ سیٹ انہوں نے رکھنی ہے یا چھوڑنی ہے یہ فیصلہ خود انہوں نے کرنا ہے، یہ جو حکومت نہیں لے رہے شاید یہ بھی اسی وجہ سے ہو۔’
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی تھی، بعد ازاں جی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے دوران انہوں نے اپنے بیان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر) فیض کا نام غلطی سے لے لیا تھا۔
اس کے علاوہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے، اس ملک آئین کی کوئی حیثیت نہیں، آئین کاغذ کے چند ورقوں کے مجموعے کا نام ہے, یہاں تو حاکمیت اعلیٰ ہماری پارلیمنٹ کی بھی نہیں ہے، ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے، ہم اس نظام کے ساتھ کس طرح چلیں گے۔