
پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کے معروف اداکار محمود اختر نے حال ہی میں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں بڑھتے ہوئے مغربی اثرات اور غیرملکی فنڈنگ کے ذریعے متعارف کیے جانے والے رجحانات پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈرامے نہ صرف معیار سے گرے ہوئے ہیں بلکہ پاکستانی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
سینئر اداکار محمود اختر، جو اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں، ایک حالیہ پروگرام میں گفتگو کے دوران کھل کر بولے۔ انہوں نے کہا کہ “میں نے ڈرامے کے ہر دور کی تبدیلی دیکھی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ڈرامے سچے، معیاری اور کردار سے بھرپور ہوتے تھے، مگر اب مغربی نظریات اور فنڈنگ کے اثر نے ان کی بنیاد ہلا دی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں کہانی کا مرکزی عنصر انسانیت، خاندانی رشتے اور معاشرتی اصلاح ہوتا تھا، مگر آج مخصوص غیرملکی موضوعات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ “اب ایک نیا فراڈ چل رہا ہے، مغرب سے مخصوص ایجنڈوں پر ڈرامے بنانے کے لیے پیسہ دیا جا رہا ہے، اور یہ سب ہماری اخلاقیات کو تباہ کر رہا ہے،” محمود اختر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
اداکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈرامے اپنی اصل روح اور مقامی ثقافتی شناخت کھو چکے ہیں۔ “ہماری کہانیاں اب ہمارے لوگوں کی زندگیوں کو نہیں دکھاتیں بلکہ بیرونی نظریات کی عکاسی کرتی ہیں، جس سے ہمارا معاشرہ بتدریج اپنی پہچان کھو رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے فنکار اور مصنفین ڈرامے کو اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ سمجھتے تھے، مگر اب اسے تفریح اور اشتہاری مفادات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستانی ڈرامہ صنعت اپنا ثقافتی وقار مکمل طور پر کھو بیٹھے گی۔
فنکاروں کے حلقوں میں محمود اختر کے اس بیان پر مختلف ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کئی سینئر فنکاروں نے ان کی تشویش سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ واقعی اپنی بنیادوں سے دور ہوتا جا رہا ہے، جبکہ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مواد اور موضوعات میں جدت آنا فطری عمل ہے۔
ماہرینِ فنون کا کہنا ہے کہ مقامی ثقافت کے تحفظ کے لیے ڈرامہ پروڈکشن میں ادارہ جاتی نگرانی اور مواد کی سمت طے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ پاکستانی ڈرامہ ایک بار پھر اپنی پہچان اور معیاری روایات بحال کر سکے۔
UrduLead UrduLead