ملک بھر میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ڈینگی وائرس کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، جس نے صحت عامہ کے نظام کو دباؤ میں ڈال دیا ہے

پاکستان میں ڈینگی کے کیسز ایک بار پھر تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اور اسلام آباد اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ علاقے بن چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب میں 42 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سب سے زیادہ 21 مریض راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاہور میں 6، ساہیوال میں 4، فیصل آباد میں 3 اور سرگودھا میں 2 کیسز رپورٹ ہوئے۔ مجموعی طور پر رواں سال کے دوران صوبے بھر میں 2,000 سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں، جن میں راولپنڈی اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ روز 28 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 15 دیہی اور 13 شہری علاقوں کے رہائشی ہیں۔ انتظامیہ نے 24,603 مقامات کا معائنہ کیا اور 652 مقامات پر فوگنگ کی کارروائیاں کیں۔ معائنوں کے دوران 430 سے زائد مقامات پر ڈینگی لاروا دریافت ہوا، جس نے مقامی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق حالیہ اضافے کی بنیادی وجہ موسمی تبدیلی، بارشوں کے بعد کھڑے پانی اور ناقص نکاسیٔ آب ہے۔ رواں برس ملک بھر میں طویل مون سون سیزن کے باعث درجنوں علاقے پانی میں ڈوب گئے تھے۔ ان سیلاب زدہ مقامات پر جمع شدہ پانی ڈینگی پھیلانے والے مچھر Aedes aegypti اور Aedes albopictus کی افزائش کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی ان مچھروں کی بقا کے لیے انتہائی موزوں ثابت ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں کیسز میں تیزی آ رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اپنی تازہ رہنمائی میں پاکستان میں ڈینگی کے بڑھتے خطرے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ادارے کے مطابق، ڈینگی اب صرف ایک موسمی بیماری نہیں رہی بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں، شہری آبادی کے پھیلاؤ، اور کمزور صفائی نظام کے باعث ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ ادارے نے پاکستان کو سخت نگرانی، فعال لاروا کنٹرول اور عوامی آگاہی مہمات کے لیے فوری اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے۔
پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں ڈینگی ٹیسٹنگ بڑھانے اور ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز قائم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ تمام ضلعی ہسپتالوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ بخار کے ہر مریض کی ڈینگی کے لیے جانچ لازمی کی جائے۔ لاہور اور راولپنڈی میں ڈینگی کنٹرول سیل قائم کیے گئے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاروا سرویلنس اور فوگنگ کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے بھی بڑے پیمانے پر انسدادِ ڈینگی مہم شروع کی ہے۔ فوگنگ اور لاروا تلفی کے ساتھ ساتھ رہائشی اور تجارتی عمارتوں میں چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گھروں، چھتوں اور صحنوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں اور مچھر پیدا ہونے کے تمام امکانات ختم کریں۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق، ڈینگی کے پھیلاؤ میں موسمیاتی تبدیلیاں ایک بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سیلسیس اضافے سے Aedes مچھر کے پھیلاؤ کی رفتار میں 15 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان جیسے گرم مرطوب ممالک میں یہ رجحان وبائی سطح پر بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا رہا ہے۔
ماضی میں پاکستان کو ڈینگی کی بڑی لہروں کا سامنا رہا ہے۔ 2017 میں پشاور میں ہونے والے ڈینگی بحران میں تقریباً 25 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے اور 69 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2019 میں ملک بھر میں 52 ہزار سے زیادہ کیسز اور 91 اموات ہوئیں، جو تاریخ کی بدترین وباؤں میں شمار ہوتی ہے۔ ان واقعات نے واضح کیا کہ ڈینگی کو قابو میں رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات ضروری ہیں، محض وقتی فوگنگ یا صفائی مہمات کافی نہیں۔
صحتِ عامہ کے ماہرین کے مطابق، حکومت کو ڈینگی سے نمٹنے کے لیے تین سطحوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے: پہلا، مؤثر لاروا کنٹرول پروگرام؛ دوسرا، کمیونٹی آگاہی تاکہ عوام احتیاطی تدابیر اپنائیں؛ اور تیسرا، ہسپتالوں میں تشخیص اور علاج کی سہولتوں میں اضافہ۔ اس کے علاوہ شہری انتظامیہ کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ نکاسیٔ آب کے نظام کو بہتر بنایا جائے، کیونکہ کھڑا پانی اس وائرس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ہے۔
عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر بھی نہایت ضروری ہیں۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ شہری گھروں کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دیں، استعمال شدہ ٹائروں اور برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیں، مچھر بھگانے والی دوا استعمال کریں، اور اگر بخار، جسم درد، یا جوڑوں میں درد محسوس ہو تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔
موجودہ صورتحال میں واضح ہے کہ ڈینگی اب ایک موسمی خطرے سے بڑھ کر قومی سطح کا صحت عامہ کا بحران بنتا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور عوام نے بروقت اور منظم اقدامات نہ کیے تو آنے والے ہفتوں میں وبا بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہے۔ اس وقت ایک مربوط قومی حکمتِ عملی اور عوامی تعاون ہی اس وبا پر قابو پانے کا واحد راستہ ہے۔
نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کےلیے ڈاکٹر سے رجوع کریں