
کراچی کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے۔ الیکٹرک کے 31 اگست 2025 تک اس کے مجموعی بقایا قرضے 272 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جن میں 91 ارب روپے غیر ملکی اور 181 ارب روپے مقامی قرضے شامل ہیں۔ اگرکمپنی پرموجودہ مالی دباؤ برقرار رہا تو بینک اور قرض دہندگان ’’ایونٹ آف ڈیفالٹ‘‘ کی شقیں نافذ کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں فوری ادائیگی کے مطالبات سامنے آ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، بڑھتے ہوئے قرضوں اور نقدی بحران نے کمپنی کی مالی پوزیشن کو خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے۔ بین الاقوامی ڈیولپمنٹ فنانس ادارے اور مقامی کمرشل بینکوں سمیت کئی قرض دہندگان اپنے معاہدوں میں شامل شقوں کے تحت قرضوں کی ادائیگی تیز کر سکتے ہیں یا نادہندگی کی صورت میں کریڈٹ لائنز منسوخ کر سکتے ہیں۔ اس اقدام سے کمپنی کی روزمرہ آپریشنز متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
کے۔ الیکٹرک کے غیر ملکی قرضوں میں زیادہ تر حصہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیا گیا ہے جو توانائی کے منصوبوں کی فنانسنگ کے لیے فراہم کیے گئے تھے، جبکہ مقامی قرضے مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے کنسورشیم کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی، سود کی بلند شرح، اور واجبات کی عدم ادائیگی نے کمپنی کی مالی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ اگر قرض دہندگان نے ڈیفالٹ کی شقیں نافذ کیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف بقایا قسطیں منجمد ہو سکتی ہیں بلکہ نئی سرمایہ کاری کے لیے دستیاب کریڈٹ لائنز بھی ختم ہو جائیں گی۔ مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت میں کے۔ الیکٹرک کی آپریشنل سرگرمیوں، خصوصاً بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے۔
کراچی میں بجلی کی فراہمی کے واحد نجی ادارے کے طور پر کے۔ الیکٹرک پہلے ہی ادائیگیوں کے بحران، نیپرا کے تعزیری فیصلوں اور واجبات کے تنازعات کا سامنا کر رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور ادارے کے درمیان بجلی خریداری کے معاہدے (Power Purchase Agreement) کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے بھی کمپنی کی مالی صورتحال غیر یقینی ہے۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی وزارت توانائی اور وزارتِ خزانہ کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کے۔ الیکٹرک کے مالیاتی ڈھانچے کی بحالی کے حوالے سے ابتدائی مذاکرات ہوئے ہیں، تاہم کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ کمپنی نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ بقایا جات کی ادائیگیوں میں نرمی اور سبسڈی کے اجرا میں تاخیر کے مسائل حل کرے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کے۔ الیکٹرک اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ناکام رہی تو یہ نہ صرف ادارے بلکہ توانائی کے پورے شعبے کے لیے خطرناک اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق، “ایونٹ آف ڈیفالٹ” کی صورت میں مالیاتی منڈیوں میں پاکستان کے پاور سیکٹر پر اعتماد مزید کم ہو سکتا ہے، جس سے آئندہ نجی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔
خیال رہے کہ کے۔ الیکٹرک 2005 میں نجی ملکیت میں جانے کے بعد سے اب تک کئی بار مالیاتی بحران کا سامنا کر چکی ہے۔ ماضی میں بھی ادارہ واجبات کے معاملات پر حکومت، سوئی سدرن گیس کمپنی، اور نیپرا کے ساتھ تنازعات میں الجھا رہا ہے۔
ذرائع نے مزید کہا ہے کہ کمپنی اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے قرض دہندگان اور حکومتی اداروں سے رابطے میں ہے اور امید ہے کہ ادائیگیوں کا بحران جلد قابو میں آ جائے گا۔ تاہم اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو قرضوں کی فوری ادائیگی اور فنڈنگ کے ذرائع کی منسوخی کمپنی کے وجود کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔