بنگلہ دیشی سوشل میڈیا صارفین نے نقلی بالوں کے ساتھ سن سِلک شیمپوکی تشہیری مہم پر اداکارہ اور کمپنی دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا

پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر حالیہ دنوں میں ایک ملٹی نیشنل شیمپو کمپنی– سن سِلک شیمپو–کی تشہیری مہم کے سلسلے میں پہلی بار بنگلہ دیش گئیں، جہاں ان کی مختلف تقاریب میں شرکت، مقامی مداحوں سے ملاقاتیں اور سیاحتی مقامات کی سیر کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ تاہم ان کے اس دورے نے غیر متوقع تنازع کھڑا کر دیا، جب بنگلہ دیشی سوشل میڈیا صارفین نے شیمپو کی تشہیر کے دوران اداکارہ کے نقلی بالوں پر سوالات اٹھائے۔
ہانیہ عامر کی تصاویر اور ویڈیوز میں انہیں گھنے، لمبے اور سیاہ بالوں کے ساتھ دکھایا گیا، جو عام طور پر ان کی اصل ظاہری شخصیت سے مختلف تھے۔ ان تصاویر کے منظرعام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر صارفین نے سوال کیا کہ آیا یہ بال اصلی تھے یا وگ۔ اس بات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا، جس میں نہ صرف اداکارہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس ملٹی نیشنل کمپنی کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے گئے جو برسوں سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ اس کا شیمپو خواتین کے بالوں کو قدرتی طور پر گھنا اور چمکدار بناتا ہے۔
بنگلہ دیشی صارفین کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس تشہیری مہم کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک شیمپو برانڈ اپنی مصنوعات کی افادیت کے ایسے بلند دعوے کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ماڈل کے طور پر ایسی شخصیت کو منتخب کرے جو اپنے حقیقی بالوں کے ساتھ برانڈ کے وعدے کی نمائندگی کر سکے۔ نقلی بالوں کے استعمال سے صارفین کے اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے اور یہ اشتہاری اخلاقیات کے منافی ہے۔
بعض صارفین نے ہانیہ عامر کی ذات پر بھی براہ راست تنقید کی اور کہا کہ ایک معروف شخصیت ہونے کے ناطے انہیں ایسی مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا جس میں ان کی اصل شخصیت کو بدل کر پیش کیا جائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر وہ اپنے حقیقی بالوں کے ساتھ مہم میں شریک ہوتیں تو زیادہ مؤثر پیغام پہنچتا اور مداحوں میں صداقت کا تاثر قائم رہتا۔
اس تنازع نے اس بڑے سوال کو بھی جنم دیا ہے کہ آیا تشہیری مہمات میں اصل دکھائی دینا زیادہ اہم ہے یا اشتہاری تصوراتی حسن کو فروغ دینا۔ خاص طور پر ایسی مصنوعات کے معاملے میں، جو براہ راست جسمانی خصوصیات جیسے بالوں، جلد یا رنگت پر اثر ڈالنے کا دعویٰ کرتی ہیں، وہاں صارفین کی جانب سے زیادہ شفافیت اور صداقت کی توقع کی جاتی ہے۔
ہانیہ عامر کا شمار ان نوجوان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کے ذریعے تیزی سے شہرت حاصل کی ہے۔ ان کی شخصیت کو Gen Z صارفین میں خاصا مقبول تصور کیا جاتا ہے، جو عام طور پر فیشن، لائف اسٹائل اور خوبصورتی کے موضوعات پر رائے سازی کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں ان کی بنگلہ دیش میں موجودگی کو کمپنی کی مارکیٹنگ حکمت عملی کا اہم حصہ سمجھا گیا، مگر اب یہ حکمت عملی الٹی پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ماہرین مارکیٹنگ کے مطابق، اشتہارات میں مبالغہ آرائی ایک پرانا رجحان ہے، لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں صارفین فوری ردعمل دیتے ہیں اور ہر چیز کی سچائی پرکھنے کے قابل ہیں، وہاں کسی بھی غیر حقیقی دعوے یا مبالغہ آمیز تشہیر کے خلاف شدید ردعمل متوقع ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں جعلی بالوں کے ساتھ کی گئی ایک معمولی تشہیری چال بھی صارفین کی نظر سے بچ نہیں سکی۔
اب تک نہ ہانیہ عامر اور نہ ہی شیمپو بنانے والی کمپنی کی جانب سے اس تنازع پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر جاری بحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ صارفین نہ صرف شعور رکھتے ہیں بلکہ اشتہاری اخلاقیات پر سوال اٹھانے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔
یہ واقعہ اس بڑی بحث کی ایک مثال ہے کہ برانڈز اور مشہور شخصیات کو اپنی تشہیری حکمت عملی میں کتنی دیانت داری برتنی چاہیے، خاص طور پر جب وہ صارفین کے اعتماد پر اثر انداز ہونے والے دعوے کر رہے ہوں۔ اس کے بعد شاید کمپنیاں اور ماڈلز اس بات پر زیادہ توجہ دیں کہ وہ کس انداز میں مصنوعات کی نمائندگی کر رہے ہیں اور کیا وہ اپنے حقیقی انداز میں صارفین کو قائل کر پا رہے ہیں یا نہیں۔