بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 158,570 پوائنٹس سے تجاوز کرگیا، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ
روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر 281.28 روپے پر آ گیا

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پیر کے روز کاروبار کا آغاز مثبت انداز میں ہوا، جہاں بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس میں ابتدائی سیشن کے دوران 500 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ صبح 10 بج کر 25 منٹ پر انڈیکس 533.52 پوائنٹس یا 0.34 فیصد اضافے کے ساتھ 158,570.89 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا، جو رواں مالی سال میں مارکیٹ کے استحکام کی ایک اہم علامت ہے۔
یہ تیزی آٹوموبائل، سیمنٹ، بینکاری، آئل اینڈ گیس اور توانائی کے شعبوں میں خریداری کے رجحان کے باعث دیکھنے میں آئی۔ خاص طور پر حبکو، ماری پٹرولیم، او جی ڈی سی، پی او ایل، ایم سی بی اور نیشنل بینک کے شیئرز مثبت زون میں ٹریڈ کرتے دکھائی دیے۔ ان کمپنیوں کی کارکردگی نے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید تقویت بخشی۔
گزشتہ ہفتے بھی مارکیٹ میں زبردست تیزی کا رجحان غالب رہا۔ کے ایس ای 100 انڈیکس میں 3,597.68 پوائنٹس یا 2.3 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا، جس کے بعد انڈیکس 154,439.69 سے بڑھ کر 158,037.37 پوائنٹس پر بند ہوا۔ ہفتے کے دوران انڈیکس نے ایک موقع پر 159,337 پوائنٹس کی بلند ترین سطح کو بھی چھوا، جو رواں سال کی نمایاں تیزی میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اس تیزی کے پیچھے متعدد معاشی اور سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک جانب حکومت کی جانب سے مالیاتی اصلاحات، ٹیکس پالیسی میں بہتری، اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا، تو دوسری جانب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مستحکم کارکردگی نے بھی مارکیٹ کو سہارا دیا۔
علاوہ ازیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں ممکنہ کمی کے اشارے اور مہنگائی میں معمولی کمی جیسے اندرونی عوامل نے بھی سرمایہ کاروں کو پرامید رکھا۔ خاص طور پر بینکاری اور آئل اینڈ گیس سیکٹرز میں ادارہ جاتی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، جس نے مارکیٹ کو مستحکم بنیادیں فراہم کی ہیں۔
مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ تیزی برقرار رہی تو انڈیکس جلد ہی 160,000 پوائنٹس کی سطح عبور کر سکتا ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک اہم نفسیاتی حد سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، وہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں مالیاتی بجٹ، پالیسی فیصلے، اور عالمی منڈیوں کی صورت حال مارکیٹ کے رجحانات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ ماضی میں بھی غیر یقینی سیاسی اور معاشی حالات کے باوجود ریکوری کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ 2023 میں بھی شدید اتار چڑھاؤ کے باوجود کے ایس ای 100 نے 150,000 پوائنٹس کی سطح کو عبور کیا، اور اب 2025 میں اس میں مزید استحکام اور بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔
اگر موجودہ مالیاتی اور صنعتی پالیسیوں میں تسلسل جاری رہا، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رہا، تو اسٹاک مارکیٹ نہ صرف ملکی معیشت کی نمائندگی کا ایک مضبوط اشارہ بنے گی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
مارکیٹ کے موجودہ رجحانات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار فی الوقت بڑے صنعتی اور مالیاتی اداروں پر اعتماد کر رہے ہیں، جو مستقبل میں مارکیٹ کی وسعت اور گہرائی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ
انٹربینک مارکیٹ میں پیر کو روپے کی قدر میں 18 پیسے کی بہتری، روپے کی مستحکم رفتار جاری
کاروباری ہفتے کے پہلے روز پاکستانی روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں معمولی مگر مسلسل بہتری کا رجحان برقرار رکھا ہے۔ پیر کی صبح 10 بج کر 30 منٹ پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 18 پیسے یا 0.06 فیصد کی کمی کے بعد 281.28 روپے کی سطح پر ٹریڈ ہوتا دکھائی دیا۔
یہ بہتری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گزشتہ ہفتے بھی روپے نے ڈالر کے مقابلے میں 9 پیسے یا 0.03 فیصد کی معمولی بہتری ریکارڈ کی تھی، اور ہفتے کے اختتام پر 281.46 روپے پر بند ہوا تھا۔ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ روپیہ بتدریج مستحکم ہو رہا ہے، جو کہ مالیاتی پالیسیوں اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے باعث ممکن ہوا ہے۔
معاشی ماہرین اس استحکام کو حکومت کی جانب سے سخت مالیاتی نظم، درآمدات پر قابو، اور بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی سے جوڑ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ میں مداخلت نہ ہونے کے باوجود روپے کا استحکام سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کا عکاس ہے۔

بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں استحکام، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، اور ترسیلات زر کی مستحکم آمد نے بھی روپے پر دباؤ کو کم کیا ہے۔ علاوہ ازیں، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی ڈسپلن اور شفافیت پر زور دینے سے بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے، جو روپے کو سہارا دینے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے حالیہ بیانات میں اشارہ دیا ہے کہ اگر موجودہ مالیاتی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو آئندہ مہینوں میں روپے میں مزید استحکام ممکن ہے۔ تاہم، ماہرین متنبہ کرتے ہیں کہ آنے والے بجٹ، درآمدی طلب میں ممکنہ اضافہ، اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی جیسے چیلنجز آئندہ دنوں میں روپے کے لیے دباؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔
گزشتہ سال کے دوران روپے نے کئی بار سخت دباؤ کا سامنا کیا، خاص طور پر جب ڈالر نے 300 روپے کی حد عبور کی تھی۔ تاہم 2025 کے آغاز سے اب تک روپے میں بتدریج بہتری دیکھی جا رہی ہے، جو معیشت کی بحالی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کا اشارہ ہے۔
روپے کی قدر میں یہ بہتری نہ صرف درآمدات کو سستا کر سکتی ہے بلکہ مہنگائی پر قابو پانے اور مالیاتی خسارے میں کمی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں معاشی پالیسیاں اور بیرونی مالیاتی تعلقات کا استحکام کلیدی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
سرمایہ کار، صنعت کار اور معاشی مبصرین اس رجحان کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں، اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ حکومت اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مالیاتی اصلاحات اور برآمدات کے فروغ پر بھی توجہ دے گی تاکہ روپیہ مزید مضبوط ہو سکے۔