سونی پکچرز کا 48 ارب روپے کا معاہدہ بھی متاثر ہوتا، براڈکاسٹ آمدنی اور اسپانسرز سے پاکستان کو ملنے والی رقوم خطرے میں پڑ جاتیں

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اگر ایشیا کپ سے دستبردار ہوتا تو اسے 3.5 سے 4.5 ارب روپے تک کا براہ راست مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا، جس سے نہ صرف بورڈ کی آمدنی بلکہ پورے خطے کی کرکٹ معیشت بھی متاثر ہوتی۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پی سی بی کی ممکنہ دستبرداری نشریاتی معاہدوں، اسپانسرشپس، اور ٹکٹوں کی فروخت جیسے بڑے ذرائع آمدن کو شدید نقصان پہنچا سکتی تھی۔
ایشیا کپ کا بائیکاٹ کرنے کی صورت میں سب سے بڑا دھچکا براڈکاسٹ رائٹس کو لگتا، جن کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔ سب سے نمایاں معاہدہ بھارتی کمپنی سونی پکچرز نیٹ ورک کا ہے، جس نے 2024 سے 2031 تک ایشیا کپ سمیت خواتین اور انڈر 19 ایشیا کپ کے تمام نشریاتی حقوق کے لیے 48 ارب روپے (تقریباً 170 ملین ڈالر) کی ڈیل کر رکھی ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان کی شرکت نہ ہونے کی صورت میں آمدنی کا تناسب کم ہوجاتا، جس سے پی سی بی کا حصہ براہ راست متاثر ہوتا۔
ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے مالیاتی ماڈل کے مطابق اس کی سالانہ آمدنی کا 75 فیصد پانچ مکمل رکن ممالک—پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، اور افغانستان—میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے، یعنی ہر ملک کو 15 فیصد حصہ ملتا ہے۔ باقی 25 فیصد ایسوسی ایٹ ممبران کو دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان بائیکاٹ کرتا تو نہ صرف اپنا حصہ کھو بیٹھتا بلکہ اے سی سی کے مجموعی مالی توازن پر بھی سوال اٹھتا۔
پی سی بی کو ایشیا کپ سے نشریاتی حقوق، اسپانسرشپ، اور ٹکٹوں کی فروخت سے 12 سے 16 ملین ڈالر (تقریباً 3.4 سے 4.5 ارب روپے) کی آمدنی متوقع ہے، جس کی کمی بورڈ کے سالانہ بجٹ پر گہرا اثر ڈال سکتی تھی۔ کرکٹ کے ماہرین کے مطابق یہ رقم پی سی بی کی گھریلو اور بین الاقوامی سرگرمیوں، اکیڈمیز، اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

ایشیائی کرکٹ کے سیاسی اور معاشی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی شرکت نہ صرف خود اس کے مالی مفادات کے لیے ناگزیر تھی بلکہ پورے ایشیا کپ کی کمرشل اہمیت بھی اس شرکت سے جڑی ہوئی تھی۔ 2023 میں بھی ایشیا کپ کے ہائبرڈ ماڈل پر اختلافات کے باوجود پی سی بی نے مکمل بائیکاٹ کے بجائے محدود میزبانی کو ترجیح دی تھی تاکہ آمدنی کے ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔
سابق کرکٹرز اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرکٹ بورڈز کو مالی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں اور اسپانسرشپ پر غیر معمولی انحصار سے گریز کرنا چاہیے، مگر موجودہ حالات میں پی سی بی کی جانب سے ایشیا کپ کا حصہ بننا معاشی حکمتِ عملی کے طور پر ناگزیر تھا۔
مجموعی طور پر ایشیا کپ میں شرکت سے پاکستان کو صرف مالی فائدہ نہیں بلکہ عالمی کرکٹ میں اپنی موجودگی مستحکم کرنے کا موقع بھی ملا، جو مستقبل میں مزید نشریاتی معاہدوں اور بین الاقوامی میچز کی میزبانی کے دروازے کھول سکتا ہے۔