تین ماہ کے دوران درآمدات میں منی لانڈرنگ، انڈر انوائسنگ اور جعلی ڈیکلریشنز سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کا انکشاف

وزیرِاعظم پاکستان کی جانب سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے متعارف کرایا گیا “فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ” (FCA) سسٹم صرف تین ماہ میں قومی خزانے کو 100 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ یہ انکشاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ماتحت ادارے، پاکستان کسٹمز آڈٹ کی ایک تفصیلی رپورٹ میں کیا گیا، جس میں 16 دسمبر 2024 سے 15 مارچ 2025 تک کی درآمدی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں جانچ پڑتال کے لیے منتخب کی گئی 13,140 گڈز ڈیکلریشنز (جی ڈیز) میں سے 2,530 ڈیکلریشنز میں تضادات، غلط بیانی اور قانون کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں، جو نہ صرف اسیسمنٹ کے معیار بلکہ نظام کے بنیادی ڈھانچے پر بھی سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ یہ آڈٹ تمام آپریشنز کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ محض ایک محدود جائزہ ہے، تاہم نتائج کے مطابق سسٹم کی کمزوریاں واضح اور تشویشناک ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق تقریباً 76 فیصد جی ڈیز ریڈ چینل، 18 فیصد گرین چینل اور 6 فیصد یلو چینل سے کلیئر کی گئیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ گرین چینل کے ذریعے کلیئر ہونے والی درآمدات میں بھی فراڈ اور منی لانڈرنگ کا امکان بڑھ گیا ہے، جہاں پری کلیئرنس چیک کا دائرہ محدود ہے۔
آڈٹ میں خاص طور پر سولر پینلز کی درآمد میں سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ جعلی درآمد کنندگان نے 2023 میں درآمد کی گئی شپمنٹس کے کنٹینرز کو ایک سال بعد کلیئر کروایا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں سسٹم میں متوقع نرمی کا پیشگی علم تھا۔ ان جعلی درآمد کنندگان نے غیر مجاز نیشنل ٹیکس نمبرز (NTNs) اور کسٹمز آئی ڈیز استعمال کرتے ہوئے سامان کلیئر کرایا، جو کہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے سنجیدہ جرائم میں شامل ہے۔
ایک مثال میں، آڈٹ نے انکشاف کیا کہ ایک کروڑ روپے کی پرانی ٹویوٹا لینڈ کروزر کو صرف 17,635 روپے کے ویلیوایشن پر کلیئر کر دیا گیا۔ یہ عمل نہ صرف ویلیوایشن رولنگز کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ واضح طور پر تجارتی بنیادوں پر منی لانڈرنگ (TBML) کے زمرے میں آتا ہے، جہاں اصل قیمت ہنڈی یا حوالہ جیسے غیر رسمی ذرائع سے ادا کی گئی ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف 1,524 ڈیکلریشنز میں 5 ارب روپے کی ٹیکس چوری، 2 ارب 43 کروڑ روپے کے جرمانے کا نقصان، اور 10 ارب 54 کروڑ روپے کی مالیت کے ممنوعہ سامان کی کلیئرنس سامنے آئی۔ اس کے علاوہ، ایک ارب یا اس سے زائد کی چوری والے کیسز میں قانونی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے 30 ارب روپے سے زائد کے ممکنہ جرمانے بھی وصول نہ ہو سکے۔
پاکستان کسٹمز آڈٹ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی اے سسٹم میں نہ صرف افرادی قوت کی نااہلی بلکہ انتظامی کمزوریوں اور تکنیکی خامیوں کی وجہ سے ٹیکس قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ SRO 499(I)/2009 کے تحت اگر کم از کم 20 فیصد جرمانہ لگایا جاتا تو 53 ارب روپے سے زائد وصول ہو سکتے تھے، لیکن حقیقت میں صرف 3.48 ارب روپے 308 کیسز سے وصول ہو سکے۔
رپورٹ میں درآمد کنندگان کے ان حربوں کو بھی بے نقاب کیا گیا جن کے تحت وہ پہلے سے منظور شدہ ڈیکلریشنز کو منسوخ کرکے کم ٹیکس کی بنیاد پر نئی ڈیکلریشنز جمع کرواتے تھے، اور جان بوجھ کر مبہم تفصیلات لکھ کر ویلیوایشن کو متاثر کرتے تھے تاکہ محکمہ کے لیے بعد میں غلط بیانی کو ثابت کرنا مشکل ہو جائے۔
گرین چینل کے استعمال میں اضافے نے سسٹم کی نگرانی اور شفافیت پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب 60 فیصد درآمدات اور 85 فیصد برآمدات گرین چینل سے کلیئر کی جا رہی ہیں، جہاں پری کلیئرنس کنٹرولز کا کردار محدود ہو گیا ہے۔ ایف سی اے کے تحت ڈیکلریشن ڈیٹا تک محدود رسائی کی وجہ سے اسیسمنٹ کا معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جدید کسٹمز نظام “فرنٹ اینڈ سہولت” اور “بیک اینڈ کنٹرول” کے توازن پر کام کرتے ہیں، مگر پاکستان میں صرف فرنٹ اینڈ سہولت پر زور دیا گیا، جس کی وجہ سے کنٹرول اور نگرانی کے نظام کو نظر انداز کیا گیا، اور یہی توازن بگڑنے سے ریونیو اور کمپلائنس کے خطرات میں اضافہ ہوا۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ماہرین اور تجارتی حلقے حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ فیس لیس سسٹم کے اس عمل کا فوری جائزہ لیا جائے گا، ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوگی اور ایف سی اے کو شفاف، محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے ضروری اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی۔ یہ اسکینڈل نہ صرف ٹیکس نظام پر عدم اعتماد کو بڑھا رہا ہے بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی تجارتی ساکھ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
#FacelessCustoms #CustomsScam #PakistanEconomy #AuditReport #Corruption