پیر , اکتوبر 13 2025

زکوٰۃ فنڈ آڈٹ سے انکار، اٹک پیٹرولیم اور پی ٹی سی ایل زیر تنقید

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں نے آڈیٹر جنرل کو ریکارڈ دینے سے انکار کیا، جس سے غریبوں کے لیے مختص کروڑوں روپے کے فنڈز میں بدعنوانی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی تازہ ترین رپورٹ نے ایک سنگین معاملہ اجاگر کیا ہے، جس میں اٹک پیٹرولیم لمیٹڈ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) پر زکوٰۃ فنڈز کے آڈٹ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دونوں کمپنیوں نے مالی سال 2022-23 کے دوران جمع شدہ اور کٹوتی شدہ زکوٰۃ کے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کیا، حالانکہ یہ فنڈز براہ راست عوامی فلاح کے لیے مختص ہوتے ہیں۔

آڈٹ پیرا 6.4.6 میں بتایا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کے دفتر نے سروس آرڈیننس 2001 کے تحت مذکورہ کمپنیوں کو ریکارڈ مہیا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اٹک پیٹرولیم کو 22 جولائی اور 29 اگست 2022 کو باضابطہ خطوط لکھے گئے تاکہ زکوٰۃ کی کٹوتیوں اور جمع آوری کے بارے میں مکمل دستاویزات فراہم کی جائیں۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل سے بھی یہی تقاضا کیا گیا۔ تاہم، دونوں کمپنیوں نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آڈیٹر جنرل کو نجی اداروں کے آڈٹ کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اس انکار کے باعث زکوٰۃ کی اصل مقدار اور اس کی تقسیم کے عمل کی تصدیق ناممکن ہو گئی ہے، جس سے فنڈز کے غلط استعمال کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کے مطابق زکوٰۃ محض نجی معاملہ نہیں بلکہ یہ فیڈرل حکومت کے ذریعے روکے گئے عوامی پیسے ہیں، جو مستحقین کے لیے مختص ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ زکوٰۃ فنڈز کی نگرانی اور جمع آوری زکوٰۃ جمع آوری کنٹرولنگ ایجنسی (ZCCA) کے تحت ہوتی ہے، جو سنٹرل زکوٰۃ فنڈ کے انتظامات چلاتی ہے۔ اس کے باوجود بعض کمپنیاں شفافیت سے تعاون کرنے کے بجائے عدالتی فیصلوں کا سہارا لے کر آڈٹ کے عمل میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔

کمپنیوں کے مؤقف کی بنیاد 2001 کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ آڈیٹر جنرل کا دائرہ کار صرف وفاقی حکومت کے ریکارڈ تک محدود ہے اور نجی ادارے اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ ریونیو ریویو اتھارٹی (DRRA) کے تحت رجسٹرڈ کمپنیاں آڈیٹر جنرل کے ماتحت نہیں۔ تاہم آڈیٹر جنرل کا موقف ہے کہ زکوٰۃ کی کٹوتی ایک نجی معاملہ نہیں بلکہ یہ لازمی طور پر عوامی دائرہ اختیار میں آتی ہے اور اس کے لیے شفافیت ناگزیر ہے۔

یہ معاملہ 7 اگست 2025 کو ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (DAC) کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا۔ اجلاس میں افسران کو بتایا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) نے 12 اپریل 2023 کے اجلاس میں زکوٰۃ فنڈز اور کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (CSR) پر تفصیلی بریفنگ طلب کی تھی۔ اس کے نتیجے میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) نے 12 جون 2023 کو ایک خط کے ذریعے کمپنیوں کو ہدایت کی کہ زکوٰۃ جمع آوری، تقسیم اور CSR یونٹس کے حوالے سے مکمل ڈیٹا فراہم کیا جائے۔

DAC نے اس کیس کو PAC کے سامنے بھیج دیا اور سفارش کی کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ذمہ داروں کا تعین کرے اور غفلت یا مزاحمت کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ زکوٰۃ فنڈز کے انتظام میں بدعنوانی یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور دیگر شفافیت کے حامی حلقوں نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر زکوٰۃ فنڈز کی مکمل جانچ نہ کی گئی تو یہ غریب عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ہوگا۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق، “زکوٰۃ کا مقصد محروم طبقے کو سہارا دینا ہے، لیکن اگر اس پر سوالیہ نشان لگ جائے تو ریاست کی سماجی فلاحی ذمہ داریاں شدید متاثر ہوں گی۔”

پاکستان میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا نظام ماضی میں بھی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں جب ضیاء الحق کی حکومت نے لازمی زکوٰۃ کٹوتی نافذ کی تو کئی حلقوں نے اس پر اعتراضات کیے۔ بعد میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں بھی زکوٰۃ فنڈز کی شفافیت پر سوال اٹھتے رہے۔ موجودہ تنازع ایک بار پھر اسی بحث کو زندہ کر رہا ہے کہ کیا ریاست نجی اداروں کو بھی اس عمل میں جواب دہ ٹھہرا سکتی ہے یا نہیں۔

فی الحال معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے زیر غور ہے، جو حتمی فیصلہ کرے گی کہ نجی کمپنیوں کو زکوٰۃ فنڈز کے آڈٹ کے لیے کس حد تک پابند کیا جا سکتا ہے۔ اٹک پیٹرولیم اور پی ٹی سی ایل نے اس حوالے سے تاحال کوئی عوامی وضاحت جاری نہیں کی۔ تاہم شفافیت کے داعی ادارے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو محض قانونی نکتہ نظر تک محدود نہ رکھے بلکہ زکوٰۃ فنڈز کے ہر روپیہ کی حفاظت اور اس کے مستحقین تک بروقت پہنچانے کو یقینی بنائے۔

زکوٰۃ فنڈز کا آڈٹ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی سوال بھی ہے، جو پاکستان کے غریب اور نادار طبقے کے مستقبل سے جڑا ہے۔ اگر اس میں شفافیت نہ آئی تو عوامی اعتماد مزید مجروح ہو سکتا ہے، جس کے اثرات ریاستی فلاحی پالیسیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ معاملے کا حتمی فیصلہ آنے تک سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا اٹک پیٹرولیم اور پی ٹی سی ایل جیسے بڑے ادارے بھی اپنی سماجی ذمہ داری نبھانے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔

About Aftab Ahmed

Check Also

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز شدید مندی دیکھی …