
کمشنریٹ برائے انسداد بے نامی اقدام اسلام آباد نے بے نامی غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کر لیں۔
کمشنریٹ برائے انسداد بے نامی اقدام نے پہلی بار بے نامی لین دین ( Prohibition ) ایکٹ2017 کے تحت بے نامی غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کی ہیں۔ ان میں پلاٹ نمبر-A 168 ( کارنر )، رقبہ 816 مربع گز، اور پلاٹ نمبر-A 174 ( کارنر )، رقبہ 991 مربع گز، بلاک H، پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (PECHS) شامل ہیں۔ یہ پلاٹ باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان کے نام منتقل کر دیے گئے ہیں اور ان کے جملہ حقوق و اختیارات اب وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔
تحقیقات کا آغاز ایک شکایت موصول ہونے پر کیا گیا جس میں مذکورہ جائیدادوں کی ممکنہ بے نامی ملکیت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جس خاتون کو ان جائیدادوں کی مالک ظاہر کیا گیا تھا، وہ ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھی اور اس نے ان جائیدادوں سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ممکنہ بے نامی دار خاتون نے بتایا کہ اس کا قومی شناختی کارڈ ان پلاٹوں کی رجسٹریشن کے لیے غلط طو ر پر استعمال کیا گیا ہے۔
مکمل تحقیقات کے بعد معاملہ بے نامی عدالتی اتھارٹی بینچ-1 اسلام آباد میں دائر کیا گیا جہاں کیس کا فیصلہ بے نامی زونI- اسلام آباد کے حق میں کیا گیا۔ مزید برآں عدالتی اتھارٹی نے ان جائیدادوں کی ضبطی کا حکم بھی جاری کیا۔ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کی مدد سے جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔
یہ اقدام حکومت کی بے نامی اثاثوں کے خلاف جاری سخت کارروائیوں سے ہم آہنگ ہے جو جولائی 2019 میں ملک بھر میں تین انسداد بے نامی زونز کے قیام کے ساتھ تیزی سے عمل میں لائی گئیں ۔ان زونز نے ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی اقدام کی نگرانی میں کام کرتے ہوئے اب تک بے نامی اثاثہ جات کے 187 سے زائد مقدمات دائر کئے ہیں، جن میں شیئرز، بینک اکاؤنٹس، گاڑیاں، زمینیں اور عمارتیں شامل ہیں۔ انسداد بے نامی اقدام زون- I، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، راولپنڈی کے سول ڈویژن اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بے نامی جائیدادوں کی شناخت اور تحقیقات میں سرگرم عمل ہے۔
ان پلاٹوں کی کامیاب ضبطی حکومت کی بے نامی لین دین کے خاتمے، غیر دستاویزی معاشی سرگرمیوں پر قابو پانے، ناجائز اور بغیر ٹیکس ادا کی گئی رقوم کی نشاندہی و گرفت، وائٹ کالر جرائم کی روک تھام اور ریاست کے لیے وسائل تلاش کرنے کی مہم میں ایک اہم پیش رفت ہے۔