محمد حنیف
صحافی و تجزیہ کار
بی بی سی اردو
ایک 18 سالہ نوجوان سے ملا۔ اس نے ووٹ بھی خود رجسٹر کروایا، ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا، خاندان کے بڑوں سے ووٹ ڈالنے سے پہلے مشورہ بھی نہیں کیا، برادری کے امیدوار کو کوئی گھاس نہیں ڈالی۔ ووٹ ڈالنے کے بعد پولنگ سٹیشن پر موجود بھی رہا، فارم 45 کی تصویریں بھی لیں اور اپنے گروپ میں شیئر بھی کیں۔
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس نے ووٹ کس جماعت کو دیا ہے، ساتھ یہ بھی بتایا کہ اپنے قیدی لیڈر کو ووٹ نہیں دیا میں نے تو نظام کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
اس کا ولولہ دیکھ کرمجھے یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ بیٹا اگر تمارے ووٹ سے نظام بدل سکتا تو نظام تمھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی کیوں دیتا۔
ایک 10 سالہ بچے نے بھی ٹی وی پر لگی الیکشن کی رونق دیکھی تو پوچھا کہ کون جیتا۔ بتایا کہ جیتنے والا تو جیل میں ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا کوئی قیدی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے اور کیا وہ پھر وزیراعظم بن کر اپنی قید ختم کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟
میں نے بات سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرف موڑ دی اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ جیل سے الیکشن لڑیں اور اگر جیت جائیں تو یا تو جیل کو وائٹ ہاس بنا دیں یا کوئی قانون استعمال کر کے جیل سے وائٹ ہاس پہنچ جائیں۔
10 سالہ بچے کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہمارے ہاں جیل میں وقت گزارنا وزیراعظم کے لیے تقریبا کوالیفیکیشن ہے۔ ہماری اپنی زندگی میں کوئی ایک آدھ وزیراعظم ہی ایسا ہو گا جس نے جیل نہ کاٹی ہو۔ کچھ کو جیل میں ڈال کر وزیراعظم بنایا جاتا ہے اور کچھ کو وزیراعظم بنا کر جیل میں ڈالا جاتا ہے۔
ہمارے سابقہ اور مستقبل کے صدر آصف زرداری صاحب نے غالبا موجودہ سیاست دانوں میں سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔ انھوں نے عمران خان کو مشورہ بھی دیا تھا کہ جیل زندگی کی یونیورسٹی ہے۔ امید ہے خان صاحب وہاں سے کچھ سیکھ کر نکلیں گے۔
نواز شریف نے بھی کئی جیلیں دیکھی ہیں بلکہ پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جو سزا یافتہ قیدی بھی رہ چکے، معافی شدہ بھی اورپھر مفرور قیدی بھی۔ الیکشن سے پہلے ان کی ایک تقریر سنی جس میں وہ گذشتہ صدی میں اپنی حکومت کے کارناموں کا ذکر کر رہے تھے۔ موٹروے، ایٹم بم۔۔۔ شاید انھوں نے جیل میں رہ کر زندگی کی یونیورسٹی سے یہ بھی نہیں سیکھا کہ وہ جن زمانوں کی بات کرتے ہیں، اس وقت پاکستان کی آدھی آبادی ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔
دوسری طرف ہماری مقتدرہ نو مئی کے واقعات کو ایک سانحہ بنا کر پیش کر رہی تھی۔ ابھی بھی کچھ لوگوں کو ہانکا کر کے کور کمانڈر صاحب کے گھر (جس پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے) کی زیارت کروائی جاتی ہے اور وہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ذمہ داران کو سخت سزا سنائی جائے۔
بار بار یہ بھی بتایا گیا کہ نو مئی پاکستان کا نائن الیون ہے اور اس کے بعد ہم وہیں کریں گے جو امریکہ نے پوری دنیا میں کیا تھا۔ اس کہانی میں صرف اتنا سقم ہے کہ 18 اور دس سالہ بچوں کو نائن الیون اتنا ہی یاد ہے جتنا نواز شریف کے موٹروے اور ہمارا ایٹم بم۔
ہماری مقتدرہ اور سیاست دانوں سب کو معیشت کی فکر ہے۔ جب سے مقتدرہ نے معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے وزیراعظم ڈھونڈے ہیں، وزیراعظم اور اس کا وزیر خزانہ، مقتدرہ کے منشی بنتے گئے ہیں۔ سوٹ شوٹ پہن کر دنیا میں جا، کوئی قرضے آگے بڑھا، کچھ لے کر آ۔
اب وزیراعظم کی نوکری بچپن میں سنے ہوئے ایک لطیفے میں ڈھال دی گئی ہے۔ نوکری آپ کی پکی۔ کام صرف یہ کہ داتا دربار جائیں، خود لنگڑ کھائیں اور ہمارے لیے لے آئیں۔
نگرانوں کو خدا حافظ، نئے نگبہانوں کو خوش آمدید۔ یہ یاد رکھیے گا کہ اگر 18 سال کا بچہ آپ کو حیران کر سکتا ہے تو جب دس سال کا بچہ 18 سال کا ہو گا تو ہو سکتا ہے اس کو اپنے سوال کا جواب مل جائے اور قیدی نمبر 804 تب بھی جیل سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہو۔