
پاکستان میں ٹیکس وصولیوں میں کمی پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے تشویش ظاہر کر دی ہے، اور اگر رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں بھی رجحان برقرار رہا تو حکومت پر نئے ہنگامی ریونیو اقدامات نافذ کرنے کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے 2025-26 کے پہلے سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ کیے جانے پر آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں تفصیلی بات چیت کی گئی۔ ایف بی آر نے فنڈ کو بتایا کہ اس مدت کے دوران 2,885 ارب روپے جمع کیے گئے، جو مقررہ ہدف 3,083 ارب روپے سے 198 ارب روپے کم ہیں۔ ستمبر میں ماہانہ ہدف 1,368 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 1,230 ارب روپے حاصل ہوئے، جس سے 138 ارب روپے کی کمی ظاہر ہوئی۔
ذرائع کے مطابق، ایف بی آر کو مالی سال 2025-26 کے اختتام تک 400 ارب روپے سے زائد کے ممکنہ خسارے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حکومت نے رواں سال کے لیے 14.13 کھرب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف مقرر کیا تھا، تاہم ابتدائی سہ ماہی میں کمی نے مالیاتی پالیسی کے اہداف پر سوال اٹھا دیے ہیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آئی ایم ایف ممکنہ طور پر پاکستان پر نئے ٹیکس اقدامات تجویز کرے گا تاکہ مالی استحکام کا ہدف برقرار رکھا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدامات ضمنی بجٹ یا ریونیو ایڈجسٹمنٹس کی شکل میں بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
دوسری جانب، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منی بجٹ کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت فی الحال کوئی نیا ٹیکس یا اضافی ریونیو اقدام نافذ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق، موجودہ توجہ ایف بی آر کی صلاحیت بہتر بنانے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر مرکوز ہے، نہ کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے پر۔
ایف بی آر کے ایک سینئر اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ فی الحال کسی نئے ٹیکس پیکیج پر کام شروع نہیں ہوا۔ تاہم ادارہ مختلف اصلاحاتی اقدامات کے ذریعے ٹیکس وصولیوں میں بہتری کی کوشش کر رہا ہے۔ ان میں محکمانہ استعداد بڑھانے، آڈٹ صلاحیت میں اضافہ، اور ڈیجیٹل ٹیکس نظام کا نفاذ شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، ایف بی آر نے بتایا ہے کہ ادارے میں تقریباً 1,600 نئے آڈیٹرز کی بھرتی کی جا رہی ہے تاکہ آڈٹ کے دائرہ کار کو وسیع کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل، فرٹیلائزر، مشروبات، پولٹری اور تمباکو جیسے اہم صنعتی شعبوں میں ڈیجیٹل پروڈکشن مانیٹرنگ سسٹم نافذ کیا گیا ہے، جس کا مقصد ٹیکس چوری کو کم کرنا اور شفافیت میں اضافہ ہے۔
ٹیکس ڈیجیٹائزیشن کے اس “ٹرانسفارمیشن پلان” کے تحت ایف بی آر نے مختلف ڈیٹا ذرائع کو آپس میں جوڑنے کا عمل شروع کیا ہے تاکہ معاشی سرگرمیوں کو ٹیکس ریٹرنز کے ساتھ مربوط کیا جا سکے۔ اس اقدام سے ٹیکس دہندگان کی بہتر شناخت، آڈٹ کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی رسک پروفائلنگ، اور ٹیکس گیپ میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
ایف بی آر کے مطابق، جاری اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان کا ٹیکس-ٹو-جی ڈی پی تناسب 2023-24 میں 8.8 فیصد سے بڑھ کر 2024-25 میں 10.24 فیصد ہو گیا ہے۔ کسٹمز اپریزمینٹ کے ’’فیس لیس‘‘ نظام نے ریونیو میں 17.3 فیصد اضافہ کیا ہے، جبکہ نفاذی کارروائیوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
تاہم آئی ایم ایف نے اپنی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) کے تحت رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان مطلوبہ ریونیو اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تو مزید اقدامات ناگزیر ہوں گے۔ رپورٹ میں فنڈ نے وہ آٹھ ’’ہنگامی ریونیو اقدامات‘‘ بھی یاد دلائے جن پر پہلے مرحلے میں اتفاق کیا گیا تھا اور جن سے سالانہ 216 ارب روپے کی اضافی آمدنی متوقع تھی۔ ان اقدامات میں شامل ہیں:
- ٹیکسٹائل اور لیدر کے ٹاپ ٹیر کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا۔
- چینی پر فی کلو 5 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنا۔
- مشینری کی درآمد پر ایڈوانس انکم ٹیکس ایک فیصد بڑھانا۔
- صنعتی خام مال کی درآمد پر 0.5 فیصد اضافی ایڈوانس انکم ٹیکس لگانا۔
- تجارتی درآمدکنندگان کے خام مال پر 1 فیصد اضافی انکم ٹیکس عائد کرنا۔
- سپلائز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں 1 فیصد اضافہ۔
- خدمات پر ودہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد پوائنٹ بڑھانا۔
- کنٹریکٹس پر ودہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ۔
مالیاتی ماہرین کے مطابق، اگر دوسری سہ ماہی میں بھی ٹیکس وصولیوں کی رفتار میں بہتری نہ آئی تو آئی ایم ایف ممکنہ طور پر ان میں سے بعض اقدامات دوبارہ متحرک کرنے یا اضافی محصولات کے نئے ذرائع تلاش کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ’’ایف بی آر کی آمدنی میں کمی مالیاتی خسارے کے ہدف کے لیے خطرناک ہے۔ اگر حکومت اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر کرتی ہے تو بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔‘‘ ان کے مطابق ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اور نان فائلرز کے خلاف کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اب تمام نظریں دسمبر 2025 کے وسط میں ہونے والے آئی ایم ایف کے اگلے جائزہ اجلاس پر مرکوز ہیں، جہاں پاکستان کے مالیاتی اہداف، اصلاحات کی رفتار اور ممکنہ نئے ٹیکس اقدامات پر حتمی فیصلہ متوقع ہے۔ اگر حکومت نے دوسری سہ ماہی میں ریونیو بڑھانے میں کامیابی حاصل نہ کی، تو نئے فزکل اقدامات، جن میں توانائی یا درآمدی شعبے پر مزید ٹیکس شامل ہو سکتے ہیں، زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف بی آر کے لیے اب اصل امتحان عمل درآمد کا ہے — کیونکہ محض اصلاحاتی وعدے، اعداد و شمار کے بغیر، آئی ایم ایف کو قائل نہیں کر پائیں گے۔