
وفاقی حکومت نے ملک میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے ریٹیل آؤٹ لیٹس اور ای کامرس کیش آن ڈیلیوری (COD) کی ادائیگیوں پر دو لاکھ روپے کی حد مقرر کر دی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکلر کے مطابق، یہ اقدام ٹیکس چوری کو روکنے اور معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس سرکلر کا اجراء 12 اگست 2025 کو ہوا ہے اور اس پر چیئرمین ایف بی آر اور دیگر متعلقہ عہدیداروں کو کاپی بھیجی گئی ہے۔
اس سرکلر کا عنوان ہے، “ریٹیل آؤٹ لیٹس اور ای کامرس میں کیش آن ڈیلیوری (سی او ڈی) کے لیے نقد ادائیگیوں کی حد سے متعلق وضاحت” اور اس کا مقصد حکومت کے کیش لیس اکانومی کے مجموعی وژن کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
اس نئے ضابطے کے تحت، کوئی بھی فرد یا ادارہ کسی بھی ریٹیل خریداری یا آن لائن آرڈر کی صورت میں دو لاکھ روپے سے زائد کی رقم نقد ادا نہیں کر سکے گا۔ یہ اقدام ان افراد کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے جو بڑی رقم کی خریداری نقد میں کرتے ہیں، جس سے اکثر مالی معاملات کا ریکارڈ نہیں رہتا۔
ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ یہ اصول انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کی شق 21(ایس) کے تحت وضع کیا گیا ہے۔ اس شق کا مقصد ایسے اخراجات کو روکنا ہے جو مکمل طور پر دستاویزی نہ ہوں اور جنہیں ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس فیصلے سے جہاں ایک طرف کاروباری اداروں کے لیے شفافیت کا ماحول پیدا ہوگا، وہیں دوسری طرف صارفین کو بھی ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب ملے گی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو تقویت ملے گی اور موبائل والٹس، بینک ٹرانسفرز اور کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈز کا استعمال بڑھے گا۔
ای کامرس سیکٹر کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج اور موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ای کامرس کی مارکیٹ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور صارفین کی ایک بڑی تعداد کیش آن ڈیلیوری کو ترجیح دیتی ہے۔
دو لاکھ روپے کی حد کا اطلاق مہنگی الیکٹرانکس، فرنیچر، اور دیگر قیمتی اشیاء کی آن لائن خریداری پر براہ راست اثر انداز ہو گا۔ ای کامرس پلیٹ فارمز کو اپنے صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی جانب راغب کرنے کے لیے نئی پالیسیاں اور رعایتیں متعارف کروانا پڑیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہیں اپنے پلیٹ فارمز پر محفوظ اور آسان آن لائن ادائیگی کے نظام کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔

روایتی ریٹیل سیکٹر بھی اس فیصلے سے متاثر ہوگا۔ بڑے شہروں میں الیکٹرانکس، جیولری، اور کاروں کی خریداری میں بڑی رقم کی نقد ادائیگیاں عام ہیں۔ اب کاروباری افراد کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ اپنے صارفین سے دو لاکھ روپے سے زائد کی رقم ڈیجیٹل ذرائع سے وصول کریں۔
اس کے لیے انہیں اپنے سیلز اسٹاف کو تربیت دینی ہوگی اور ادائیگی کے متبادل طریقوں کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔ حکومت کا یہ اقدام ٹیکس وصولی کو بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ مالیاتی معاملات کا ریکارڈ ہونے کی وجہ سے ٹیکس چوری کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
حکومت کا یہ اقدام ملک میں ایک باقاعدہ اور دستاویزی معیشت کے قیام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس سے نہ صرف ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوگا بلکہ غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ تاہم، اس پالیسی کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام اور کاروباری طبقہ اسے کس حد تک اپنائے گا۔
حکومت کو اس فیصلے کے بارے میں بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانی چاہیے اور ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کو دیہی اور دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں۔ ایف بی آر کو بھی اس نئے ضابطے کی نگرانی اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ اس کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں