
وزارت قومی صحت سروسرز، ریگولیشنز و کوآرڈینیشن (NHSR&C) میں ایک اہم انتظامی ردوبدل کے تحت وفاقی حکومت نے ڈاکٹر قاسم عباسی کو ایڈز، تپ دق (TB) اور ملیریا کے لیے قائم مشترکہ انتظامی یونٹ (CMU) کے نیشنل کوآرڈینیٹر کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
اسی دوران، وزارت نے ایک بار پھر اسپیشل سیکریٹری ہیلتھ مرزا ناصرالدین مشہود احمد کی خدمات واپس کر دی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے مناسب متبادل کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشنز کے مطابق، فی الحال CMU کی سرگرمیاں وزارت کے ایڈیشنل سیکریٹری کے دفتر کے تحت عبوری طور پر چلائی جائیں گی۔
وزارت صحت میں NIH بھرتیوں کا معاملہ پر ڈاکٹر قاسم کی برطرفی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ان پر شدید سیاسی دبا ئو تھا، وفاقی وزیر برائے کشمیر امور و گلگت بلتستان، انجینئر امیر مقام، اپنے سگے بھائی ڈاکٹر موسی خان کی بی پی ایس-21 کے اہم عہدے پر تقرری کے لیے سرگرم تھے،
امیر مقام نے وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا کہ ان کے بھائی کو یہ عہدہ دیا جائے، کیونکہ انہیں سابق پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا اور او ایس ڈی بنا دیا گیا۔انہوں نے کہا: “اسلام آباد اس کے لیے موزوں ہے، وہ یہاں رہائش پذیر ہے اور پمز میں پہلے بھی خدمات انجام دے چکا ہے۔ اسے باعزت عہدہ ملنا چاہیے۔”
ڈاکٹر قاسم عباسی کی برطرفی کے وقت پر عالمی صحت کے اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ CMU نہ صرف گلوبل فنڈ کے ملٹی ملین ڈالرز کے گرانٹس کا نگران ہے بلکہ ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا پر قومی حکمت عملیوں کی نگرانی بھی کرتا ہے۔ اس عہدے کی غیرجانب داری اور ساکھ میں عالمی ڈونرز کا اعتماد انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔اسی دوران وزارت کو اعلی سطح پر بیوروکریٹک عدم استحکام کا بھی سامنا ہے۔
23 مئی کو جاری کردہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن، جس پر وزیر صحت کے دستخط تھے، میں کہا گیا کہ اسپیشل سیکریٹری مرزا ناصرالدین مشہود احمد کی خدمات “اب مزید درکار نہیں” اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کر دیا گیا ہے۔یہ اقدام سیکریٹری ہیلتھ ندیم محبوب کی علیحدگی کے بعد سامنے آیا، جس کے بعد وزارت میں دونوں اہم انتظامی عہدے خالی ہو چکے ہیں۔
باوجود اس کے کہ ان کی خدمات واپس کر دی گئی ہیں، مرزا ناصر بدستور اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور سرکاری اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے حالیہ اجلاس میں جب اراکین نے ان سے موجودگی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے صاف کہا: “میں وزیر اعظم کے حکم پر ہی چارج چھوڑوں گا۔”وزارت قومی صحت میں اختیارات کا خلا مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے کیونکہ متعدد سینئر افسران وزارت کا چارج لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق، وزیر صحت مصطفی کمال کے تحت کام کرنے کا ماحول سازگار نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حکام نے انکشاف کیا کہ کئی بی ایس-22 افسران نے وزارت میں تعیناتی کی پیشکش ٹھکرا دی ہے، جس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت اور غیرتکنیکی قریبی ساتھیوں کی موجودگی ہے، جیسے کہ ایاز مصطفی، جنہیں “ڈائریکٹر جنرل ٹو ہیلتھ منسٹر” مقرر کیا گیا ہے ایک ایسا عہدہ جو وزارت کے منظور شدہ ڈھانچے میں موجود ہی نہیں۔مزید یہ کہ، وزیر صحت ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم کو بھی ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے سمری زیرِ غور ہے۔ وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرت کو بھی پالیسی معاملات سے عملا الگ کر دیا گیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اندرونی بدنظمی اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں سے نہ صرف عالمی اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے بلکہ قومی سطح پر بیماریوں پر قابو پانے کی کوششیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔
ایک سینئر اہلکار نے کہا: “پاکستان کی ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا کے خلاف کوششوں کی ساکھ اور عالمی شراکت داریوں کے تسلسل کا انحصار شفافیت اور میرٹ پر مبنی تقرریوں پر ہے۔”وزارت میں سیکریٹری اور اسپیشل سیکریٹری دونوں کے بغیر کام چل رہا ہے، اور اس کی سب سے اہم بیماریوں پر قابو پانے والی اسکیم عبوری انتظام کے تحت ہے۔ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت پر زور ہے کہ وہ فوری طور پر انتظامی استحکام بحال کرے، میرٹ کو فروغ دے، اور قومی صحت کے اہم پروگراموں کی ساکھ کو تحفظ دے۔