دوسری جائزہ قسط کے لیے بات چیت شروع، ٹیکس اصلاحات، توانائی بحران اور سیلابی اثرات ایجنڈے کا حصہ

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسلام آباد میں پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، جس کا مقصد ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کی منظوری سے قبل مالی، ٹیکس اور توانائی سے متعلق اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ یہ مذاکرات پاکستان کے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت ہو رہے ہیں، جس کا مقصد ملکی معیشت کو استحکام دینا ہے۔
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف مشن کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد ابتدائی تکنیکی مذاکرات مکمل کر لیے گئے، جس کے بعد اب اعلیٰ سطح کی پالیسی گفتگو کا آغاز ہوا ہے۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستان کو نہ صرف مالیاتی بحران، بلکہ سیلاب جیسے موسمی چیلنجز اور محصولات میں کمی جیسے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔
وزارت خزانہ نے مذاکرات میں آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران محصولات کا ہدف مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکا، جس کی وجوہات میں معاشی سست روی، سیلاب سے پیدا شدہ نقصانات اور عدالتی رکاوٹیں شامل ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے توقع ظاہر کی ہے کہ قدرتی آفات کے پیش نظر شرائط میں نرمی کی جائے گی۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات بھی ان مذاکرات کا اہم نکتہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے بجلی چوری، لائن لاسز اور گردشی قرضوں سے متعلق تفصیلی پلان طلب کیا ہے تاکہ بجلی کی ترسیل اور مالیاتی نظام کو مستحکم بنایا جا سکے۔
پالیسی سطح کی ان مذاکرات میں صوبائی حکومتوں کی مالی کارکردگی بھی زیر غور آئی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ تمام صوبے بجٹ سرپلس کو یقینی بنائیں تاکہ وفاقی مالیاتی اہداف متاثر نہ ہوں۔
آئی ایم ایف مشن کی قیادت ناتھن پورٹر کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی وفد میں وزیر خزانہ، سیکریٹری خزانہ اور ایف بی آر حکام شامل ہیں۔ مذاکرات کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ پاکستان نے پہلی قسط کے بعد درکار اصلاحات پر کس حد تک عمل درآمد کیا، اور کیا وہ مستقبل کی قسطوں کے لیے مؤثر طور پر اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات پاکستان کے مالی مستقبل کے لیے نہایت اہم ہیں، کیونکہ ان کی کامیابی سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف نے سخت شرائط برقرار رکھیں تو ان کا اثر ترقیاتی اخراجات اور عام آدمی پر بھی پڑ سکتا ہے۔

آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اگلی قسط کی منظوری، پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے دیگر قرضوں کے حصول کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اس لیے ان مذاکرات کو نہ صرف مالی بلکہ سفارتی تناظر میں بھی اہمیت حاصل ہے۔
آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کے اختتام پر اعلامیہ جاری کیا جائے گا، جس میں یہ واضح ہو جائے گا کہ آیا پاکستان مقررہ شرائط پوری کرنے میں کامیاب ہوا یا مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے نرمی کی اپیل ضرور کی ہے، لیکن یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا ادارہ زمینی حقائق کے پیش نظر لچک دکھانے کو تیار ہے یا نہیں۔