
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت نجی شعبے اور نوجوانوں کو ترقی میں مرکزی کردار دینے کے لیے اختراعات اور ضابطہ جاتی فریم ورک کی مکمل حمایت کرے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں ایسا سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے جس میں نجی شعبہ اقتصادی ترقی کی قیادت کر سکے۔ اسلام آباد میں ہفتے کے روز لیڈرشپ سمٹ آن بلاک چین اینڈ ڈیجیٹل ایسٹس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بلاک چین اور ڈیجیٹل اثاثوں جیسی جدید اور انقلابی ٹیکنالوجیز کو تیز رفتاری سے اپنانے کی ضرورت ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں اس “نئی معیشت” کو اپنانا ہوگا جو اختراع، ڈیجیٹلائزیشن اور نوجوانوں کی شمولیت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت اس سفر میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ ان کے مطابق پاکستان کے دو سے ڈھائی کروڑ شہری، خاص طور پر نوجوان، پہلے ہی کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل اثاثوں سے وابستہ سرگرمیوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے اس موقع کو آگے بڑھنے کے لیے نہایت موزوں وقت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تمام ترقی ایک واضح ضابطہ جاتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہیے تاکہ شفافیت قائم رہے، سرمایہ کاروں کو تحفظ ملے اور ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکا جا سکے۔
پاکستان کا یہ موقف اس عالمی بحث کی عکاسی کرتا ہے جس میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں تیزی سے بڑھتی ہوئی بلاک چین ایپلی کیشنز—جیسا کہ کرپٹو کرنسی، ٹوکنائزڈ اثاثے، سپلائی چین مینجمنٹ اور ڈیجیٹل شناخت—کے حوالے سے کس طرح کا ردعمل اختیار کریں۔ امریکہ اور یورپی یونین جیسے ممالک پہلے ہی اس حوالے سے ضابطے تیار کر چکے ہیں، جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اب یہ غور کر رہے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے فوائد کس طرح حاصل کیے جائیں اور نقصانات کو کس طرح کم کیا جائے۔
وزیر خزانہ کے یہ بیانات حکومت کی اس پالیسی کے مطابق ہیں جس میں نجی شعبے کو معیشت میں جدت لانے کا قائدانہ کردار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ طبقہ ڈیجیٹل معیشت کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھرا ہے۔ فری لانسنگ، فِن ٹیک اسٹارٹ اپس اور آن لائن ٹریڈنگ میں ان کی شمولیت پہلے ہی نمایاں ہے، جبکہ بلاک چین کے میدان میں بھی نوجوانوں کی دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق بلاک چین نہ صرف مالیاتی نظام بلکہ سرکاری خدمات، ٹیکس نظام اور زمینوں کے ریکارڈ میں شفافیت لانے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم کرپٹو کرنسی کی غیر منظم مارکیٹس نے فراڈ، منی لانڈرنگ اور مالی عدم استحکام جیسے خدشات کو بڑھایا ہے، جنہیں کم کرنے کے لیے ضابطہ جاتی نگرانی ناگزیر ہے۔
وزیر خزانہ کی یہ بات کہ لاکھوں پاکستانی پہلے ہی ڈیجیٹل اثاثوں میں سرگرم ہیں، اس امر کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ایک واضح اور جامع ضابطہ بنائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے مبہم پالیسی جاری رکھی تو وہ خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ جائے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت جیسے ہمسایہ ملک مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی جیسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
اس سمٹ میں شریک پالیسی سازوں، صنعت کاروں اور ٹیکنالوجی ماہرین نے زور دیا کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر ایسے پائلٹ پراجیکٹس پر کام کریں جن میں بلاک چین کو بین الاقوامی ادائیگیوں، مالی شمولیت اور ڈیجیٹل شناخت کے نظام میں آزمایا جا سکے۔
اگرچہ آگاہی کی کمی، سرمایہ کاروں کا تحفظ اور سائبر سکیورٹی کے خدشات جیسی رکاوٹیں موجود ہیں، لیکن حکومت کا بلاک چین کی جانب جھکاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ پالیسی سطح پر سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان، جو اکثر نئی ٹیکنالوجی اپنانے میں سست روی کا شکار رہا ہے، اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بلاک چین کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔
محمد اورنگزیب نے اختتامی کلمات میں کہا کہ نجی شعبے کو ڈیجیٹل تبدیلی کا “قائدانہ کردار” ادا کرنا ہوگا جبکہ حکومت سہولت کار کے طور پر سامنے آئے گی، کنٹرولر کے طور پر نہیں۔ ان کے یہ بیانات اس جانب اشارہ ہیں کہ پاکستان جلد ہی بلاک چین کے حوالے سے ضابطہ جاتی اقدامات کر سکتا ہے، جس سے اس شعبے میں سرمایہ کاری اور جدت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔