انڈسٹریل الیکٹریسٹی پلانٹس کو جنوری تک گیس کی سپلائی ختم کرنے کے لیے وزارت خزانہ اور پٹرولیم ڈویژن آمنے سامنے آگئے،
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کا قرض پیکیج منظور کرتے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ حکومت 31جنوری 2025 تک انڈسٹریل الیکٹریسٹی پلانٹس کو گیس کی سپلائی ختم کردے گی، تاہم اب عملدرآمد کے مرحلے پر دونوں اداروں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے،
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن نے دعویٰ کیا کہ ہمارے تحفظات کے باجود وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی یہ شرط قبول کی، شرط پر عملدرآمد سے حکومت اور صنعتوں کو 427 ارب روپے کا نقصان ہوسکتا ہے،
تاہم وزارت خزانہ نے پٹرولیم ڈویژن کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم ڈویژن مذاکرات کے دوران مکمل رضامند تھا، لیکن اب اپنی پوزیشن تبدیل کر رہا ہے،
واضح رہے کہ یہ تنازعہ پٹرولیم ڈویژن کے جائزے کے بعد پیدا ہوا ہے، جس میں یہ سامنے آیا ہے کہ صنعتوں کی گیس سے بجلی پر مکمل شفٹنگ کیلیے 2 سال کا عرصہ درکار ہوگا،
جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے وقت ضروری ہوم ورک نہیں کیا اور بغیر کسی تیاری کے معاہدہ کرلیا، جس کے نقصانات اب سامنے آرہے ہیں،
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے علم میں آچکا ہے اور وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 2 اجلاس کرچکے ہیں، لیکن اس کے باجود مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے، جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی 4 اجلاس کیے جاچکے ہیں،
ذرائع کے کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں تناؤ کی صورتحال بھی دیکھنے میں آئی ہے، ایک وزیر نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے جارحانہ انداز اختیار کیا تھا،
پٹرولیم ڈویژن کا تخمینہ ہے کہ گیس کی فراہمی منقطع کرنے سے اربوں روپے کا نقصان ہوگا، جس میں سے 100 ارب روپے کا نقصان صرف کراس سبسڈی کی مد میں ہوگا، جو صنعتی صارفین سے گھریلو صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کیلیے وصول کی جاتی ہے،
آئی ایم ایف کی اس شرط کا مقصد بجلی کی گرتی ہوئی کھپت کو بڑھانا ہے تاکہ پیداواری لاگت کو کم کیا جاسکے،
واضح رہے کہ کیپٹیو پاور جنریشن سے صنعتوں کو بجلی کی کاسٹ 30 روپے فی یونٹ پڑتی ہے، جو کہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کی صورت میں جولائی میں دیے گئے ریلیف کے باجود 40 روپے فی یونٹ ہوگی۔