حکومت نے نجی آئی پی پیز اور سرکاری پاور ہاؤسز کے درمیان فرق نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات پاور سیکٹر اصلاحات کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتائی ہے جو آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے حکومت کو بجلی کے کاروبار سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کیلئے حکومت کی ملکیت والے 52؍ فیصد بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو بھی ’’بجلی دو ادائیگی لو‘‘ کے ماڈل پر منتقل کیا جائے گا۔ تاہم، حکومت ان کو صرف فعال بنانے کیلئے رقم دے گی۔
اس کے علاوہ، حکومت اپنے پلانٹس کی صلاحیت کی ادائیگی کو کم سے کم سطح پر لائے گی۔ اس کے علاوہ، یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت اپنے پلانٹس پر موجودہ ٹیک یا پے موڈ کی بنیاد پر ایکویٹی پر ریٹرن نہیں لے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی آئی پی پیز اور سرکاری پاور پلانٹس کیلئے یکساں پالیسی ہوگی۔
سرکاری پاور پلانٹس سے بجلی ’’بجلی دو ادائیگی لو‘‘ کی بنیاد پر خریدی جائے گی یعنی ادائیگی صرف بجلی خریدنے کیلئے ہوگی۔ اور اسی طرح ایکویٹی پر ریٹرن بھی اسی پالیسی کے تحت ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل بنیادوں پر قابل عمل بنانے کیلئے بجلی کے نرخوں میں معقول حد تک کمی لانے میں ٹاسک فورس کم از کم دو ماہ مزید لگیں گے۔
تاہم، اس مقصد کیلئے حکومت اپنے پلانٹس کے قرضے ادا کرے گی اور ایسا کرنے کیلئے سرکاری پاور پلانٹس (جوہری، ہائیڈرو پاور، آر ایل این جی اور کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس) کو بینکوں سے دیے گئے قرضوں کی دوبارہ ری پروفائلنگ کی جائے گی۔