وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے کہا ہے کہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ باہمی رضامندی سے نظر ثانی شدہ معاہدوں کے بارے میں اچھی خبر چند ہفتوں میں عوام کے ساتھ شیئر کی جائے گی کیونکہ ٹاسک فورس تقریباً اپنے حتمی نتائج تک پہنچ چکی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے سامنے ایک پالیسی بیان میں وزیر توانائی نے کہا کہ انہوں نے قائمہ کمیٹی کے ساتھ پہلے بھی ملاقاتوں میں مذاکرات کی تازہ ترین معلومات شیئر کی ہیں، جو عوامی طور پر اور بند کمرے کے اجلاس میں پیش کی گئیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹاسک فورس، جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایس ای سی پی اور دیگر متعلقہ ادارے شامل ہیں، نے پاور جنریشن یونٹس کا جامع تجزیہ کیا ہے، جس میں سرکاری ملکیتی بجلی گھروں کی ریٹرن آن ایکویٹی (آر او ای) بھی شامل ہے، جسے بجٹ میں ادائیگیوں کے توازن یا حکومت کی طرف سے انجیکٹ کی گئی ایکویٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں اپنی پالیسیوں کو مزید سخت کرنا اور کائبور کے ساتھ 2 فیصد بقایا جات کی ادائیگیوں کا توازن شامل ہے۔
ہر پلانٹ کے آپریشن اینڈ مینٹیننس (او اینڈ ایم) اخراجات، فکسڈ او اینڈ ایم، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور دیگر اخراجات کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ ان معاملات میں پیش رفت اہم ہے۔ بجلی کے نرخوں کی موجودہ سطح پائیدار نہیں ہے۔
بگاس استعمال کرنے والے بجلی گھر مجموعی بجلی پیداوار کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ دیگر اہم مسائل جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان میں درآمد شدہ کوئلہ یا فرنس آئل کی قیمتیں، بگاس سے پیدا ہونے والی بجلی کی اصل قیمت، اور شمسی منصوبوں کی لاگت، جن میں بین الاقوامی منصوبوں کی قیمتیں اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اپ فرنٹ ٹیرف کے تحت قائم کیے گئے بجلی گھروں کی آپریشن اور مینٹیننس (او اینڈ ایم) کی لاگتوں میں کچھ ترمیم پر بھی غور کیا جارہا ہے، جو مسابقتی بولی کے ذریعے قائم کیے گئے بجلی گھروں کے مقابلے میں ہے۔ ٹاسک فورس اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کون سے بجلی گھر ملک کے لیے ضروری ہیں اور کن معاہدوں کو ختم کیا جا سکتا ہے یا جن کی کیپیسٹی پاور پرائس (سی پی پی) منسوخ کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 روپے فی یونٹ فائدہ ہونے کا امکان ہے لیکن ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ حکومت 50 پیسے فی یونٹ، ایک روپے فی یونٹ یا 80 پیسے فی یونٹ تک کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کے شعبے کا جائزہ تقریبا مکمل ہوچکا ہے اور آنے والے ہفتوں میں عوام کے ساتھ اچھی خبریں شیئر کی جائیں گی۔
لغاری نے کہا کہ حکومت نے بجلی کے تمام منصوبوں کے لئے ریٹرن آن ایکویٹی (آر او ای) اور آپریشن اینڈ مینٹیننس (او اینڈ ایم) لاگت کا جائزہ مکمل کرلیا ہے۔ ہر پلانٹ کی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور دیگر اخراجات کی مکمل چھان بین کی گئی ہے۔
ہم کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے بجائے، ہم باہمی رضامندی کے ذریعے ایک ایسی پوزیشن تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں آئی پی پیز سمیت تمام فریق سمجھتے ہیں کہ صارفین کے ٹیرف کی موجودہ صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ تمام کارروائیاں آئی پی پیز کے اعتماد کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔