آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں، ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم کی پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم منظوری کے لیے پہلے سینیٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے، سینیٹ سے منظوری کی صورت میں آئینی ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق اسی پیش نظر قومی اسمبلی کے اجلاس کے وقت میں تبدیلی کی گئی ہے، قومی اسمبلی کا اجلاس اب آج دن11 بجے کے بجائے شام 6 بجے ہوگا۔
دوسری جانب مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی مسودے کے نکات میں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت نہ آئینی بینچ، بلکہ آئینی ڈویژن کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت کا مجوزہ آئینی ترمیمی مسودہ 12 صفحات اور 24 نکات پر مشتمل ہے، نئے آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں ’’آئینی ڈویژن‘‘ کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا۔
مجوزہ مسودے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ججز کیلئے ممکنہ حد تک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل اختیار سماعت، سوموٹو مقدمات کا مجاز نہیں ہوگا،
سپریم کورٹ کا کوئی جج آئینی اپیلوں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا، سوموٹو، اوریجنل جورسڈکشن کی سماعت اور فیصلہ ’’آئینی ڈویژن‘‘ کا 3 رکنی بینچ کرے گا، صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ بھی ’’آئینی ڈویژن‘‘ کا 3 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، آئینی ڈویژن کے 3 سینئر ترین جج تشکیل دیں گے، سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں زیر التواء کیسز اور نظرثانی درخواستیں منتقل ہوں گی۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس، سروسز چیفس کی دوبارہ تقرری، توسیع قوانین کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا، اس کیلئےآئین میں نئے آٹھویں شیڈول کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، آرٹیکل 243 میں نئی شق 5 کا اضافہ جس میں ترمیم کے بغیر ان قوانین میں رد و بدل نہیں ہو سکے گا۔
حکومتی مسودے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کیے جائیں گے، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئرپرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئرپرسن 15روز میں اجلاس بلانے کا پابند ہوگا، اجلاس نہ بلانے پر سیکریٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔
آرٹیکل 179 میں ترمیم، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائر ہوجائیں گے۔
آرٹیکل 63 میں ترمیم، دہری شہریت کا حامل الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار پائے گا، منتخب ہونے پر 90 روز میں غیر ملکی شہریت ترک کرنے کی پابندی ہوگی، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا۔
حکومتی مسودے میں کہا گیا کہ نیا آرٹیکل 9 اے متعارف، صحت مندانہ پائیدار ماحول بنیادی حق قرار دیا گیا ہے، آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیر مملکت کے الفاظ حذف کیے جائیں، صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 81 میں ترمیم، سپریم جوڈیشل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے۔
آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائےگا، آرٹیکل184 (3) کے تحت سوموٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک جاری کر سکے گی۔
آرٹیکل 186 اے میں ترمیم، سپریم کورٹ مقدمہ، اپیل کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کی مجاز ہو گی، سپریم کورٹ مقدمہ، اپیل خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
آرٹیکل 186 اے میں ترمیم، سپریم کورٹ انصاف زیر سماعت مقدمہ اپیل یا خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم، چیف جسٹس پر ریفرنس کی صورت میں سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا، ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائیگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹریٹ اور ایک سیکریٹری کی سربراہی میں اسٹاف کی تجویز کی گئی ہے۔
متن میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران مدت مکمل ہونے پر نئی تقرریوں تک 90 روز تک کام کرسکیں گے، چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کا پارلیمنٹ کی قراداد کے ذریعے دوسری مدت کیلئے تقرر کیا جاسکے گا۔
کوئی آئینی عہدیدار کسی دوسرے آئینی عہددیدار سے حلف لینے سے انکار کرے تو نئی نامزدگی ہوسکے گی، چیف جسٹس پاکستان یا چیف جسٹس ہائیکورٹ حلف لینے کے لئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں۔